مضامین

خود شناسی سے وجود کی بازیابی تک (وقت، تعلق اور خدا شناسی کا روحانی سفر)

    🍁✍۔مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
               📱09422724040
         •┈┈•┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈•┈┈•
انسان کو اللّٰہ نے "احسن تقویم” (best stature) میں پیدا کیا — ایک کامل، بامقصد، اور باوقار مخلوق کے طور پر۔ مگر جب وہ دنیا کی چکاچوند میں دوسروں کے لیے جینے لگتا ہے — ماں باپ کی رضا، اولاد کی پرورش، رشتوں کا لحاظ، اور معاشرتی توقعات کی تعمیل میں دن رات ایک کر دیتا ہے — تو وہ اکثر بھول جاتا ہے کہ اُس کا اپنا بھی ایک وجود ہے، ایک دل ہے، ایک روح ہے… جسے اس کے ربّ نے امانت بنایا ہے۔ وہ ہر دل کی آواز سنتا ہے، مگر اپنے دل کی سسکیوں سے غافل رہتا ہے۔ وہ ہر زخم پر مرہم رکھتا ہے، مگر اپنی روح کی تھکن کو جھٹلا دیتا ہے۔ قرآن یاد دلاتا ہے: "وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا”۔ اور دنیا میں سے اپنا حصّہ مت بھولو۔ (القصص: 77)
یہ "حصّہ” صرف دنیاوی آسائشات کا نہیں، بلکہ خودی کی شناخت، روح کی سلامتی، دل کا سکون اور وقت کا حق بھی ہے۔ اور جب انسان ان سب سے دور ہو جاتا ہے، تو پھر وہ لمحہ آتا ہے — جب وہ آئینہ جس میں کبھی اپنا عکس پہچانتا تھا، اجنبی نظر آنے لگتا ہے۔ تب دل میں ایک خلا سا بھرنے لگتا ہے، شکوے جنم لیتے ہیں، لہجہ سخت ہو جاتا ہے، اور چہرے کی مسکراہٹ غائب ہو جاتی ہے۔ ایسے میں خلوت عبادت بن سکتی ہے، اور تفکر عبادت کا دروازہ کھول سکتا ہے۔ نبی اکرمﷺ کی سنّت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ خود سے جُڑنا، خلوت اختیار کرنا، اور اپنے ربّ سے راز و نیاز کرنا — یہ سب نفس کو سکون دیتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: "ألا وإنَّ في الجسدِ مُضغةً، إذا صَلَحَتْ صَلَحَ الجسدُ كلُّهُ، وإذا فسدتْ فسدَ الجسدُ كلُّهُ، ألا وهي القلبُ”۔ "سن لو! جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، اگر وہ درست ہو جائے تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے، اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے — وہ ہے دل”۔ (صحیح بخاری)
لہٰذا… زندگی کے ہنگامے میں چند لمحے خود کے لیے چرا لینا، اپنے دل کی دھڑکن کو سننا، اپنے خوابوں کو جگانا، دراصل ایک عبادت ہے — خود سے اور ربّ سے تعلق کی تجدید۔
ایسا نہ ہو کہ کل جب سب کچھ پاس ہو، تو آپ خود اپنے آپ سے گمشدہ ہوں۔ ہر دن کو اُس شعور کے ساتھ جئیے کہ یہ امانتِ وقت ہے — جو لوٹ کر نہیں آتی۔ جیسے فرمایا گیا: "فَأَيْنَ تَذْهَبُونَ”۔ پھر تم کہاں جا رہے ہو؟ (التکویر: 26)۔ اپنی اصل صورت، اصل خوشی، اصل رشتہ — جو اللّٰہ سے جُڑا ہے — اُسے نہ کھوئیے۔ کیونکہ جو خود سے جُڑا ہوتا ہے، وہی مخلوق کے لیے رحمت، اور ربّ کی نظر میں محبوب بنتا ہے۔
انسان، اللّٰہ تعالیٰ کی تخلیق کا شاہکار ہے۔ اسے نہ صرف جسمانی قوت عطا کی گئی، بلکہ روحانی عظمت، فکری بلندی اور اخلاقی بصیرت کا بھی سرمایہ بخشا گیا۔ اسلام انسان کو محض ایک جسم سمجھ کر نہیں دیکھتا، بلکہ ایک امانت دار، ایک ذمّہ دار، اور ایک باوقار مخلوق کی حیثیت سے اس کی تربیت کرتا ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے: "وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ…”۔ (بنی اسرائیل: 70)۔ "اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزّت دی…”۔ اسی عزّتِ انسانی کا تقاضا ہے کہ ہم نہ صرف دوسروں کا خیال رکھیں بلکہ خود کو بھی فراموش نہ کریں۔
"خُود شناسی درِ خدا شناسی ہے” — یہ قول محض ایک فلسفیانہ حقیقت نہیں، بلکہ اسلامی فکر کا وہ مرکزی نکتہ ہے جس کی بنیاد پر انسان اپنے وجود، مقصدِ حیات، اور خدا سے تعلق کی سمت متعین کرتا ہے۔ قرآن ہمیں یاد دلاتا ہے: "وَفِي أَنفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ”
اور تمہارے اپنے نفسوں میں (بھی ہماری نشانیاں ہیں)، کیا تم دیکھتے نہیں؟ (الذاریات: 21)۔ اسلام نے انسان کو محض ایک جسمانی وجود نہیں سمجھا، بلکہ اُسے ایک امانتدار، خلیفہ، اور عبد کے طور پر اس زمین پر بھیجا۔ لیکن جب ہم زندگی کی بھاگ دوڑ میں دوسروں کے لیے جیتے ہوئے خود کو فراموش کر بیٹھتے ہیں، تو دراصل ہم اُس امانت کا حق ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں جو اللّٰہ نے ہمیں سونپی ہے — یعنی اپنی ذات، اپنا دل، اپنا ایمان، اور اپنی روح۔
نبی کریمﷺ کی حیاتِ طیبہ میں بھی ہمیں توازن کا درس ملتا ہے — عبادت اور راحت، خدمت اور خلوت، دنیا اور دین، سب کے بیچ اعتدال۔ آپﷺ نے فرمایا: "إن لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا”۔ "بے شک تمہارے نفس کا تم پر حق ہے”۔
(صحیح بخاری)۔ پس جب انسان اپنے وجود سے، اپنے احساسات سے، اور اپنے ربّ سے جُڑتا ہے، تبھی وہ دوسروں کے لیے سچّا سہارا، سچّا خادم، اور سچّا محب بن سکتا ہے۔
ہم اکثر دوسروں کے لیے جیتے ہیں — ماں باپ کی خوشی، اولاد کی پرورش، دوستوں کا ساتھ، رشتہ داروں کا لحاظ، معاشرے کی توقعات۔ ہر طرف نگاہ رکھتے ہیں، ہر دل کا حال سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، ہر ایک کے درد کو محسوس کرتے ہیں۔ مگر… اکثر اسی دوڑ میں ہم اپنے آپ کو کہیں پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم خود کو وقت نہیں دیتے،
اپنے دل کی آواز نہیں سنتے، اپنی تھکن کا اعتراف نہیں کرتے۔ ہم ہنستے ہیں، مگر اندر کہیں خاموشی چیختی ہے۔ ہم مسکراتے ہیں، مگر آنکھیں وہ کہانیاں چھپا لیتی ہیں جنہیں ہم خود بھی پڑھنے سے ڈرتے ہیں۔
پھر ایک دن… وقت کے کاندھے پر بیٹھ کر پلٹ کر دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم تو خود کو کہیں راہ میں کھو چکے ہیں۔
جو آئینہ کبھی ہمیں پہچانتا تھا، آج وہ ہمیں اجنبی نظروں سے دیکھتا ہے۔ تب دل میں خلاء سا پیدا ہوتا ہے، اور ہم خود سے ہی خفا ہونے لگتے ہیں۔ ہم شکوے کرنے لگتے ہیں — کبھی زندگی سے، کبھی اپنے قریبی لوگوں سے، کبھی ان خوابوں سے جنہیں ہم نے خود ہی ترک کیا تھا۔ اور پھر یہ شکوے ہمارے لہجے کو سخت بنا دیتے ہیں، مسکراہٹوں کو معدوم، اور دل کو بوجھل۔
اس لیے… زندگی کے اس ہنگامے میں، روز کچھ لمحے اپنے لیے چرا لیجیے۔ چند سانسیں خود کے نام کیجیے۔ اپنی صحت کا، دل کا، ذہن کا خیال رکھیے۔ ایسا نہ ہو کہ کل جب سب کچھ ہو، تو آپ نہ ہوں — اپنی اصل صورت، اپنی اصل خوشی کے ساتھ۔ خود سے ایک تعلق استوار کیجیے، اپنے دل کی دھڑکن کو سنیے، اپنی آنکھوں کے خوابوں کو پھر سے جگائیے۔ یقین جانیے، جو شخص خود سے جُڑا رہتا ہے، وہی دوسروں کے لیے سچّی خوشی، سچا سہارا بن سکتا ہے۔ ہر دن کو اس شدّت سے جئیے، جیسے وہ آپ کا آخری دن ہو — نہ کوئی شکوہ باقی رہے، نہ کوئی حسرت۔ کیوں کہ وقت تو بہتا دریا ہے، یہ واپس نہیں آتا، صرف احساس چھوڑ جاتا ہے۔ اپنے وجود کو، اپنی خوشیوں کو، زندگی کے سفر میں کہیں گم نہ ہونے دیجیے۔
پس اے انسان! یاد رکھ کہ تُو محض گوشت پوست کا جسم نہیں، بلکہ ایک امانت دار روح بھی ہے، جس کا تعلق زمین سے کم اور آسمان سے زیادہ ہے۔ اپنے ربّ کے عطا کردہ لمحات کو یوں ضائع نہ ہونے دے کہ کل پچھتاوا ہی تیرے دامن میں رہ جائے۔ زندگی کی اس دوڑ میں، کبھی اپنے خالق کی طرف پلٹنا بھی سیکھ— کیوں کہ اصل سکون، اصل پہچان، اور اصل مسکراہٹ اسی کے قرب میں ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا: "أَلاَ بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ”۔ خبردار! اللّٰہ کے ذکر سے دلوں کو سکون نصیب ہوتا ہے۔ (سورۃ الرعد: 28)
اپنے وجود کو پہچانئے، اپنے ربّ کو یاد رکھئء، اور یہ جان لیجیئے کہ جو خود کو ربّ کے قریب کر لیتا ہے، وہی اپنی اصل سے جُڑ جاتا ہے۔ اور جو اپنی اصل سے جُڑ جائے، وہ نہ صرف خود خوش رہتا ہے، بلکہ دوسروں کے لیے بھی رحمت، سہارا اور روشنی بن جاتا ہے۔ یاد رکھئے، یہ دنیا امتحان ہے، اور تمہاری ذات بھی ایک سوال ہے۔ اس کا جواب تمہیں خود ہی بننا ہے — اللّٰہ کی رضا کے ساتھ، خود شناسی کے نور میں۔ "فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ”۔ پس دوڑو اللّٰہ کی طرف! (سورۃ الذاریات: 50)۔ تو اے دل کے مسافر، خود کی طرف پلٹ، ربّ کی طرف دوڑ، کہ اسی میں تیری اصل، تیرا سکون، اور تیری نجات ہے۔ کیونکہ جو اپنے ربّ کو پا لیتا ہے، وہ کبھی گم نہیں ہوتا۔
           •┅┄┈•※‌✤م✿خ✤‌※┅┄┈•
       🍁مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
todayonelive@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!