مضامین
آہِ زنجیر سے چراغِ احتساب تک: ممبرا سے احمد آباد—انسانیت، جوابدہی اور خداشناسی کا سفر





•┈┈•┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈•┈┈•
وَمَنْ أَحْیَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِيعًا (المائدہ: 32)۔ “جس نے ایک جان کو بچایا، گویا اس نے تمام انسانیت کو بچایا”۔
حرمتِ جان سے حکمرانی کی جوابدہی تک
اسلام میں انسانی جان کی حرمت کسی ایک فرد کی نہیں، بلکہ پورے معاشرے کی ذمّہ داری ہے۔ جب کوئی جان ناحق جاتی ہے، خواہ وہ ریل کی پٹری پر ہو یا فضاؤں میں معلق طیارے میں، تو یہ صرف ایک انسانی سانحہ نہیں، بلکہ ایک شرعی سوال بھی جنم لیتا ہے، کیا ہم نے وہ تمام اقدامات کیے تھے جن کا حکم ہمیں قرآن و سنّت نے دیا؟ کیا ہم نے امانت، عدالت، مشورہ اور محاسبہ کے اصولوں کو اپنی ریاستی مشینری میں داخل کیا تھا؟ یا ہم نے ان قیمتی تعلیمات کو فائلوں اور فتوؤں تک محدود کر دیا؟ اللّٰہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: “إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا…” (النساء: 58)۔ “بے شک اللّٰہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اُن کے حق داروں کو ادا کرو”۔
ریاست، ادارے، وزیر، انجینیئر، افسر سب پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ انسانی جان کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی ذمّہ داریاں ادا کریں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: “کُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ” “تم میں ہر شخص نگران ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا” (صحیح بخاری)۔ پس جب ہم سانحۂ ممبرا یا احمد آباد جیسے المناک واقعات پر نگاہ ڈالتے ہیں، تو ہمیں صرف آنکھوں کے نم ہونے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔ یہ وہ لمحے ہیں جو ہمیں جھنجھوڑتے ہیں، یہ سوال دہراتے ہیں کہ کیا ہم نے اپنی انسانی، اخلاقی اور مذہبی ذمّہ داریاں نبھائیں؟ کیا ہم نے وہ عملی اقدامات کیے جو ہندوستان جیسے کثیر المذہب اور ترقی یافتہ ملک میں ہر جان کو بچانے کے لیے لازم ہیں؟
ہندوستان، جہاں آئین ہر شہری کو زندگی اور سلامتی کا بنیادی حق دیتا ہے، جہاں ہر مذہب چاہے وہ اسلام ہو، ہندو دھرم، سکھ مت یا عیسائیت انسانی جان کو امانت سمجھتا ہے، وہاں جب کوئی مسافر ٹرین کے نیچے آتا ہے یا جہاز شعلوں میں گھِر کر زمیں بوس ہوتا ہے، تو صرف ایک انسان نہیں مرتا، آئینی وعدہ، عوامی امانت اور انتظامی دیانت بھی دم توڑتی ہے۔ یہ تحریر صرف ماتم نہیں، بلکہ محاسبہ کا اعلان ہے، ایک اجتماعی سوال ہے جس کا مخاطب صرف ریلوے یا ہوا بازی کا محکمہ نہیں، بلکہ ہم سب ہیں۔ ہم، جو انسانی اقدار اور اصولوں کے وارث ہیں، مگر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ جو ووٹ تو دیتے ہیں مگر سوال نہیں کرتے۔ ہم، جو مذہب کی بات کرتے ہیں مگر انسانی جان کی حرمت کو بھول جاتے ہیں۔
جب امانت عوام سے لے کر حکومتی اداروں تک ذاتی مفاد کی نذر ہو جائے، جب انصاف کا ترازُو محض سیاسی بیانات کے بوجھ تلے دب جائے، جب احتساب کی آواز عوامی یادداشت سے زیادہ ٹی وی بریکنگ نیوز کے بینر تک محدود ہو جائے، تو حادثے تقدیر کا کھیل نہیں رہتے، نظام کی تکراری ناکامی کا علامیہ بن جاتے ہیں۔ یہ سوال بھارت جیسے ترقی پذیر اور ابھرتے ہوئے ملک میں اس لیے اور بھی سنگین ہو جاتا ہے کہ یہاں کروڑوں لوگ روزانہ ریل میں سفر کرتے ہیں، ہزاروں ہوائی جہازوں پر اعتماد کرتے ہیں، اور ایک محفوظ مستقبل کا خواب آنکھوں میں سجاتے ہیں۔ اگر ہم نے ان خوابوں کی حفاظت نہ کی، تو تاریخ ہمیں صرف تماشائی نہیں، قصوروار بھی لکھے گی۔
ریل کی سیٹی نے ممبرا کے اسٹیشن پر جب آخری چیخ بلند کی تو لمحے بھر کو فضا میں ایسا سناٹا اُترا جیسے وقت نے سانس روک لی ہو۔ کئی بےگناہ پیکر، جو ابھی پل بھر پہلے سفری بیاض میں منزلیں جوڑ رہے تھے، گریزاں لوہے کے پہیوں کے نیچے ریزہ ریزہ ہو کر عدم کی گود میں جا سوئے۔ پلیٹ فارم پر پھیلے خون کے چھینٹے، اُن کی سرخ کہانیاں لکیر بہ لکیر لکھتے رہے مگر مسافر ٹرین کی رفتار کے ساتھ اُن صفحات کو بھی پلٹتے گئے۔
اور محض چند ہی روز بعد، احمد آباد کی زمین نے ایک اور چیخ اپنے سینے میں دفن کی، جب فلک بوس پرواز نے شولا گُزیدہ پرواز کا کفن اوڑھا۔ سی این این کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 290 سے زائد انسان، جن کے پاسپورٹ پر مہرِ اڑان تھی اور دلوں میں نئے افق کے خواب، اب راکھ کے ذروں کی صورت ایک انجانی گنتی میں بدل گئے۔ بادلوں میں لپٹا طیارہ اس طرح گرا کہ فضا کی چھاتی سے آگ کے چشمے پھوٹ نکلے، اور آس پاس کے آکاش نے سسک کر دھواں اوڑھ لیا۔
۱- سوالِ بےتاب؟؟ یہ خوں شکستہ ذمّہ داری کس کی؟
یہ سوال ریل کی پٹری کے کنارے پڑا تڑپ رہا ہے، یہ سوال جلتے ہوا بازوں کی ہڈیوں میں تکلیف کی طرح در آیا ہے!!! ذمّہ داری کی گردان کس کی!!! آخر قاتل کہاں چھپا ہے؟ قصوروار کون ہے؟
کیا وہ انجینئر، جس نے بجٹ کی فائل پر تو دستخط ثبت کیے، مگر سگنل کے تاروں میں جان نہ ڈال سکا؟ کیا ادارۂ ریلوے و فضائیہ، وہ عظیم الشان مشینری، جو بجٹ اور اعداد و شمار کے بوجھ تلے دب کر انسان کو محض ایک گنتی کا ہندسہ سمجھنے لگی؟ کیا ٹھیکیدار اور سپلائر مافیا، جو کم قیمت مصالحے، بوسیدہ سگنل اور نقلی پرزے بیچ کر اصل جانوں کا سودا کرتے ہیں؟
وہ وزیر وہ منتخب نمائندے، جس نے اخباری کالموں میں افسوس کی سیاہی تو خوب لٹائی، مگر نظام کی زنگ آلود کیلیں ٹھوکنے کا وقت نہ نکالا۔ وہ جن کے حلف میں عوامی امانت کا وعدہ تھا، مگر جن کی ترجیحات ریل کے کوچ اور طیارے کے کیبن نہیں، بلکہ انتخابات کے کوچے اور اقتدار کے کیبن رہے۔
یا ہم وہ تماشائی ہیں جو حادثے کی بریکنگ نیوز کے شور کے بعد ریل کی چیخیں اور طیارے کی دھک دھک بھلا کر پھر معمول کی گفتگو میں مشغول ہو جاتے ہیں؟ ہم سب، جن کی یادداشت حادثے کے سرخ ہندسے سے بھی زیادہ سرخ بریکنگ نیوز کے گزرتے ہوئے بینر تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
۲- تفصیلِ حادثہ!!! لہو رنگ واقعات میں دبے اسباب
• زنگ آلود نظامِ نگہداشت کی ناآسودہ روح، سالانہ معائنے کاغذوں پر مکمل، میدانِ عمل میں ادھورے، زمین پر نامکمل یازنگ آلود بولٹ کی ٹھنڈک، یا ناقص کیبل کی پھڑپھڑاہٹ۔
• انسانی خطا کا زہر، تربیت کا فقدان، تربیت کے نام پر نوٹس کی کشتی میں معلومات کا بوجھ، انجینیئرنگ ڈگری ہاتھ میں، مگر عملی مشقوں کے سمندر سے کوسوں دور۔
• ٹیکنالوجی کی محرومی، سیّاروں پہ کمندیں ڈالنے کا دعویٰ، مگر پٹری پر آٹو سیفٹی نہیں۔ مالی لالچ کے ناسور ٹھیکیدار کی جیب موٹی ہو، تو حفاظت کی کُل پونجی پتلی ہو جاتی ہے، اسٹیل کی جگہ ٹِن اور ٹیکنالوجی کی جگہ قسمیں اور وعدے لگا دیے جاتے ہیں۔
• جوابدہی کی قبرستانی خاموشی، تحقیقاتی رپورٹیں میٹنگ روم کے فریموں میں سجا دی جاتیں، اور مقتولین کے گھرانے دیواروں سے سر ٹکرا کر لوٹ آتے۔ جوابدہی کا یہ بحران—حالانکہ تحقیقاتی کمیشن بنے، رپورٹیں چھپیں، فائلیں دفن ہوئیں؛ مگر نہ کسی کی تنخواہ کٹی، نہ کسی کا خواب بٹا۔
۴۔ حل و تدارک!!! اندھیرے میں چراغاں
•حادثہ یاتوپیا ایکٹ
ہر حادثے کے بعد محض افسوس، مذمت یا اخباری بیانات کافی نہیں۔ اس قانون کا مقصد یہ ہے کہ ہر سانحے کو ایک سنگِ میل بنایا جائے، نہ کہ فراموش گزرگاہ۔ اس ایکٹ کے تحت، ہر بڑے حادثے یا سانحے کے بعد ایک مخصوص طئے شدہ میعاد کے اندر ایک عدالتی کمیشن کی تشکیل لازمی ہوگی، جس کی رپورٹ قانونی طور پر پابند اور شفاف ہوگی، نہ کہ محض خانہ پُری یا رسمی کارروائی۔ اگر کمیشن کسی بھی قسم کی مجرمانہ غفلت، کوتاہی یا سازش کی نشاندہی کرے تو متعلقہ افراد کے خلاف فوراً مجرمانہ مقدمہ درج کیا جائے گا۔
اس قانون کے نفاذ کے بعد “مجرم نامعلوم” کا باب ہمیشہ کے لیے بند کیا جائے گا۔ ہر سانحے کی ذمّہ داری طے ہوگی، ہر کردار کی شناخت ہوگی، اور ہر غفلت کا حساب ہوگا۔ یہ قانون محض اصلاح نہیں، انصاف کی جانب ایک پیش قدمی ہے، تاکہ متاثرین کی آہیں، فقط ہواؤں میں نہ گم ہوں، بلکہ نظام کے ایوانوں تک گونجیں… اور وہاں سے جواب بھی آئے۔
•ٹیکنالوجیکل اپ گریڈ: محفوظ سفر کی ناگزیر سمت
حادثات کی روک تھام صرف انسانی تربیت یا قوانین سے ممکن نہیں، بلکہ ٹیکنالوجی کے جامع استعمال سے ہی حقیقی تحفّظ ممکن ہے۔ اس نئے عہد میں، انسانی خطا کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا، مگر اوزاروں کی ذکاوت (intelligent systems) کے ذریعے اسے قابو میں ضرور لایا جا سکتا ہے۔
اسی لیے ریل نظام میں ETCS-II (European Train Control System Level-II) جیسے جدید خودکار کنٹرول سسٹمز کا نفاذ ناگزیر ہے۔ یہ نظام نہ صرف ٹرینوں کی رفتار، فاصلہ اور سگنلنگ کو خودکار طریقے سے کنٹرول کرتا ہے، بلکہ انسانی غفلت کی گنجائش کو بھی کم سے کم کرتا ہے۔
اسی طرح ہوائی بیڑے میں Real-Time Health Monitoring سسٹمز کی تنصیب وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ یہ نظام ہر پرزے، سینسر اور نظام کی حالت پر لمحہ بہ لمحہ نظر رکھتا ہے، اور کسی ممکنہ خرابی کی پیشگی اطلاع دے کر بڑے سانحے کو روکتا ہے۔ درحقیقت، “انسانی خطا × اوزار کی ذکاوت = محفوظ سفر”۔ یہی جدید حکمتِ عملی ہے، یہی مستقبل کا نکتۂ آغاز۔ یہ ٹیکنالوجی محض سہولت نہیں، تحفّظ ہے۔ ایک ایسا تحفّظ جو انسان کی نادانستہ غلطی کو معاف نہیں کرتا، بلکہ اس سے پہلے ہی اسے درست کرنے میں مدد دیتا ہے۔
•مالی احتساب: منافع سے پہلے حفاظت
ہر شعبے کا پہلا اخلاقی تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ منافع سے پہلے حفاظت کو ترجیح دی جائے۔ لیکن بدقسمتی سے، ہمارے نظام میں اخراجات کی ترجیحات اکثر منافع، کمیشن اور ٹھیکیداری لالچ کے گرد گھومتی ہیں۔ جب کہ انسانی جانوں کے تحفّظ پر خرچ کو غیر ضروری یا قابلِ کٹوتی سمجھا جاتا ہے۔
اس رجحان کو بدلنے کے لیے لازمی ہے کہ “منافع سے پہلے حفاظت” فنڈ قائم کیا جائے، ایسا مختص بجٹ جو ہر بڑے منصوبے، انفراسٹرکچر یا آپریشن میں کم از کم 20 فیصد حفاظت، حفاظتی معائنے، اور احتیاطی تدابیر (safety audits, risk assessment, fail-safe mechanisms) پر خرچ کرنا لازم قرار دے۔
یہ رقم محض ایک فالتو خرچ نہیں، بلکہ انسانوں کی زندگیاں محفوظ رکھنے کی قیمت ہے۔ ساتھ ہی، ٹھیکیداروں، سپلائرز، اور افسران کے لیے مالی احتساب کے ایسے سخت ضابطے نافذ ہوں جو لاپرواہی یا بچت کے نام پر حفاظتی اقدامات نظر انداز کرنے والوں کو جواب دہ بنائیں۔ یہی وہ عمل ہے جو ٹھیکیداری لالچ کی رگ میں سرد پانی ڈالے گا اور ثابت کرے گا کہ ریاست صرف بجٹ کا حساب نہیں، زندگی کا تحفّظ بھی کرتی ہے۔
•انسانی سرمایہ: حفاظت کا پہلا اور آخری مورچہ
ٹیکنالوجی، قوانین اور بجٹ جتنے بھی جدید ہوں، اگر انسانی ہاتھ، ذہن اور دل اس نظام میں کمزور ہوں تو حادثات روکنا ممکن نہیں۔ اسی لیے انسانی سرمایہ یعنی وہ لوگ جو ریل چلاتے ہیں، پروازوں کو ممکن بناتے ہیں، اور نظام کو رواں رکھتے ہیں۔ حفاظتی نظام کا پہلا اور آخری مورچہ ہیں۔ اس سرمائے کی پائیداری اور کارکردگی تبھی ممکن ہے جب:
بھرتی کا عمل مکمل شفاف، غیر سیاسی اور میرٹ پر مبنی ہو۔ ہر ملازم کے لیے ہر طئے شدہ معیاد پر ریفریشر کورسز لازم ہوں، جن میں جدید ٹیکنالوجی، ہنگامی ردّعمل، اور حفاظتی پروٹوکول شامل ہوں۔ ساتھ ہی، نفسیاتی فٹنس ٹیسٹ کو بھی باقاعدہ نظام کا حصّہ بنایا جائے، تاکہ ذہنی دباؤ، تھکن یا لاپرواہی جیسے عوامل بروقت شناخت کیے جا سکیں۔ یہ تمام اقدامات مل کر وہ توازن قائم کرتے ہیں جسے ہم کہہ سکتے ہیں:
فنی مہارت × ذہنی چوکسی = فعال اور محفوظ نظام
آخرکار، انسان ہی نظام چلاتے ہیں۔ اگر انسان چوکس، تربیت یافتہ اور تندرست ہوں تو نظام خودبخود محفوظ ہو جاتا ہے۔
•عوامی شرکت: مسافر تماشائی نہیں، محافظ
حفاظتی نظام صرف حکومت، اداروں یا ماہرین کی ذمّہ داری نہیں۔ مسافر بھی نظام کا حصّہ ہیں، اور ان کی آنکھ، مشاہدہ اور آواز حادثے سے پہلے کا الارم بن سکتی ہے۔ اسی لیے وقت آ گیا ہے کہ عوامی شرکت کو رسمی سطح پر نظام کا حصّہ بنایا جائے۔ اس مقصد کے لیے:
“حادثہ واچ” جیسی ایپ متعارف کرائی جائے، جس کے ذریعے مسافر فوری طور پر کسی خرابی، لاپروائی، یا خطرے کی اطلاع دے سکیں۔ اسی طرح، ہر ٹکٹ بکنگ پر ایک مختصر اور لازمی “سیفٹی فیڈبیک فارم” شامل کیا جائے، جس میں مسافر اپنی تجرباتی رائے، شکایات یا مشاہدات درج کر سکیں۔
یہ اقدامات مسافروں کو صرف سفر کرنے والا تماشائی نہیں رہنے دیتے، بلکہ انہیں اس نظام کا فعال محافظ اور نگران بناتے ہیں۔ آخرکار، جس نظام میں عوامی شرکت ہو، وہ صرف محفوظ نہیں بلکہ ذمّہ دار بھی ہوتا ہے۔
۵۔ حرفِ محاسبہ—دِل پہ لکھّی فردِ جرم
جب ریل کی پٹری سے لپٹ کر کوئی مسافر آخری سانس لیتا ہے یا طیارے کی جلتی کھڑکی سے امید جھلس کر گرتی ہے، تو محض ایک فرد نہیں مرتا؛ ریاستی ضمیر کا ایک ٹکڑا، سماجی وعدے کا ایک ورق اور انجینیئرنگ کی اخلاقیات کا ایک ستون بھی ڈھے جاتا ہے۔ حادثے قدرت کی تقدیر نہیں، انسانی تدبیر کی شکست ہیں۔
یہ حادثے قدرت کے لکھے ہوئے المناقش مسودے نہیں بلکہ ہمارے تدبر کے ٹوٹے حروف ہیں۔ ریل کی پٹری پر بہتا خون اور شعلوں میں لپٹا ایئر کرافٹ دراصل سماج کے اجتماعی ضمیر کے ماتمی سائے ہیں۔ اگر آج ہم نے ان ملبوں سے حقیقی اصلاح کا سنگِ میل نہ تراشا تو کل تاریخ سانحات کی فہرست لمبی کرے گی، اور ہر نئے صفحے پر یہی سوال کانٹے کی طرح چبھتا رہے گا—ذمّہ دار کون؟
اسلام صرف عبادت کا نام نہیں، بلکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ جس میں جان کی حرمت، امانت کی پاسداری، عدل کا قیام، اور خلقِ خدا کی خدمت بنیادی ستون ہیں۔ نبی کریمﷺ نے صرف نماز، روزے یا حج کی تلقین نہیں کی، بلکہ فرمایا: “الخلقُ كلهم عيالُ الله، فأحبُّهم إلى الله أنفعُهم لعياله”۔ تمام مخلوق اللّٰہ کا کنبہ ہے، اور اللّٰہ کو سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اُس کے کنبے کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش ہو۔ (شعب الإيمان، بیہقی)
ہر وہ شخص جو ریاستی، فنی، سماجی یا اخلاقی ذمّہ داری کا حامل ہے، دراصل اللّٰہ کے بندوں کا محافظ ہے۔ اور محافظ کی کوتاہی، صرف ایک انتظامی غلطی نہیں بلکہ ایک امانت کی خیانت ہے۔ قرآن اعلان کرتا ہے: “وَقِفُوهُمْ ۖ إِنَّهُم مَّسْئُولُونَ” (الصافات: 24) ۔ اور انہیں روک لو، بے شک ان سے سوال کیا جائے گا۔ یہ سوال کل قیامت میں بھی ہوگا، مگر وہ سوال اس دنیا میں بھی ہے۔ اگر ضمیر جاگے، اگر قلم سچ لکھے، اگر ادارے خود کو محاسبے کے لیے پیش کریں، اور اگر قومیں انسانوں کی جانوں کو اعداد کی گنتی نہیں، اللّٰہ کی امانت سمجھیں۔
آج ہم ایک ایسے دور میں ہیں جہاں ہم چاند پر کمند ڈالنے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن زمین پر انسانوں کی جانوں کی حفاظت نہ کر سکنے پر خاموش ہیں۔ ہمیں وہ قوم بننا ہے جس کا سفر، صرف منزلوں تک نہ ہو بلکہ انسانیت کی فلاح تک پہنچے۔ وہ قوم جس کا نظام، صرف رفتار سے نہ پہچانا جائے بلکہ حفاظت، امانت اور عدل سے جانا جائے۔
یا اللّٰہ! اس ملک کو اور تمام مسلم ممالک کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنا، اور ہر جان کی حفاظت فرما۔ یا اللّٰہ! ہمارے معاملات کی باگ ڈور نیک لوگوں کے ہاتھ میں دے، اور بدعنوانوں سے ہمیں بچا۔ اے ہمارے ربّ! اگر ہم سے بھول یا غلطی ہو گئی ہو تو ہمیں معاف فرما۔
آیئے! ہم عہد کریں کہ حادثے کی خاکستر سے جوابدہی کے چراغ روشن کریں؛ بجٹ کی ہر سطر میں حفاظت کا حقِ اوّل لکھیں؛ اور یاد رکھیں کہ ہر مسافر کی سلامتی صرف دعا کی ہمشیرہ نہیں بلکہ انتظامی تدبیر کی واجب النسب بیٹی ہے۔ تبھی ریل کی سیٹی میں نوحہ نہیں، نغمہ سنائی دے گا؛ اور طیارے کی پرواز تپتے شعلوں کی بجائے امن کے نیلے آکاش میں بےخوف پر پھیلائے گی۔ اگر آج ہم نے جواب طلبی کا دروازہ نہ کھٹکھٹایا تو کل ہونٹوں پر پھر وہی سوال ہوگا—ذمّہ دار کون؟ اور جواب میں صرف سناٹا ملے گا۔

