فارم ہاؤس کلچر: نمود و نمائش کا نیا فتنے

۔مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)
09422724040
•┈┈•┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈•┈┈•
گزشتہ چند برسوں سے مسلم معاشرہ جس تبدیلی کے سفر پر گامزن ہے، اس میں ایک نمایاں اور فکر انگیز پہلو وہ تیز رفتار تبدیلی ہے جسے عرفِ عام میں "فارم ہاؤس کلچر” کہا جا رہا ہے۔ خوشیوں کی محفلیں، شادیوں کی رنگینیاں، سالگرہوں کی چمک دمک، عقیقوں کی ضیافتیں، حتیٰ کہ مذہبی و تربیتی اجتماعات جیسے میلاد و دعا تک اب ان سب کی میزبانی گلی محلّوں، گھریلو آنگنوں یا سادہ ہالوں کے بجائے شہر سے دُور، سبزہ زاروں میں قائم ان پرتعیش فارم ہاؤسز میں ہونے لگی ہے۔
یہ منظر نامہ بظاہر بہت دلکش اور دل فریب ہے چمکتی روشنیاں، رقص کرتی فواریں، خوش رنگ غبارے، ریشمی پردے، مہنگے پھولوں سے آراستہ اسٹیج اور فائیو اسٹار کھانوں سے سجی میزیں سب کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے خوشی نے کوئی ملمّع شدہ تاج پہن لیا ہو۔ لیکن جب ہم اس ظاہری خوبصورتی کے پردے کو چاک کرتے ہیں، تو پیچھے بہت سی فکری، دینی اور اخلاقی دراڑیں ہمیں چونکانے لگتی ہیں۔ فارم ہاؤس کلچر دراصل ایک نئے معاشرتی خمار کی شکل اختیار کر چکا ہے، جو محض سہولت کا نام نہیں بلکہ مسابقت، دکھاوے اور نام نہاد "اسٹیٹس” "اسٹیٹس سمبل” کی جنگ بن چکا ہے۔ اب تقریبات کی اصل روح، خلوص اور سادگی مفقود ہوتی جا رہی ہے۔ دل کی خوشی اب دل سے نہیں بلکہ "کیمرے کی آنکھ” سے ماپی جاتی ہے۔ تقویٰ، وقار اور وقارِ دینی اب اس شور میں کہیں دب کر رہ گئے ہیں۔
ایک وقت تھا جب دعوتِ ولیمہ میں برکت کی دعائیں گونجا کرتی تھیں، اب ان کی جگہ ڈی جے کی گونج اور مہمانوں کے موبائل فلٹرز نے لے لی ہے۔ وہ میلاد جس میں صلوٰۃ و سلام کے نغمے دلوں کو نرم کرتے تھے، اب صرف فوٹو سیشن کا ایک سیٹ بن کر رہ گیا ہے۔ عقیقے کی وہ پر سکون محفلیں، جہاں ایک دعا ہوتی تھی اور مہمان کو شکر کے ساتھ رخصت کیا جاتا تھا، اب بیف کی چار اقسام، سی فوڈ اسٹیشن اور لائیو گریلنگ کے نام پر اسراف کے طوفان میں ڈوب چکی ہیں۔ یہ فارم ہاؤسز گویا خوشیوں کے قیمتی پنجرے بن چکے ہیں، جن میں ہم اپنی اقدار، اپنی روایات، اور دین کی سادگی کو قید کر رہے ہیں۔ خاندانی نظام کی بنیادیں جو سادگی، اپنائیت اور یکجہتی پر رکھی گئی تھیں، اب ان میں نمود و نمائش، غیر ضروری تقابل اور توقعات کا زہر شامل ہو چکا ہے۔
یہ فارم ہاؤس کلچر صرف ایک معاشرتی انداز نہیں، یہ ایک طرزِ فکر ہے ایسا طرزِ فکر جو ہمیں مادّہ پرستی، روحانی غفلت اور فضول خرچی کی دلدل میں دھکیل رہا ہے۔ یہ وہ روش ہے جو ہمیں اسلاف کی راہوں سے دور اور صارفیت (consumerism) کی تاریک گلیوں میں لے جا رہی ہے، جہاں دین کی روشنی مدھم پڑتی جا رہی ہے۔ پس، اب وقت آ گیا ہے کہ ہم رُک کر سوچیں کیا یہ چمکتی تقریبات واقعی ہمیں خوشی دے رہی ہیں؟ یا ہم محض ایک رَو میں بہے جا رہے ہیں؟ کیا ہمارے بچّوں کو ہم اصل اسلامی تہذیب سے روشناس کروا رہے ہیں، یا صرف ایک دکھاوے پر مبنی مصنوعی زندگی کا مزہ چکھا رہے ہیں؟ اگر جواب نفی میں ہے تو ہمیں لوٹنا ہوگا۔ سادگی کی طرف، سنّت کی طرف، دل کی سچائی کی طرف۔ کہ اصل خوشی تو اسی میں ہے، اور اصل "اسٹیٹس” وہی ہے جو ربّ کے نزدیک معتبر ہو۔
● اسراف اور فضول خرچی: روح کا زوال، معاش کا زیاں
جب دولت کی ریل پیل اور ظاہری چمک دمک دل و دماغ پر چھا جائے، تو انسان سوچتا ہے کہ شاید خوشی کا نام اسی کا دوسرا چہرہ ہے۔ یہی سوچ، یہی فریب، ہمارے معاشرے میں فارم ہاؤس کلچر کے ذریعے ایک نئے طوفان کی صورت میں ابھرا ہے۔ ایک طوفان جو نہ صرف دولت کو بہا لے جا رہا ہے، بلکہ دلوں کی سادگی، نیتوں کی پاکیزگی اور دین کی روح کو بھی خاموشی سے چاٹ رہا ہے۔
آج ایک دن کی تقریب، جس کا مقصد صرف مبارکباد اور دعاؤں کا تبادلہ ہونا چاہیے، لاکھوں کے خرچے، قیمتی لائٹنگ، آرائش و زیبائش سے لبریز اسٹیج، فضول ساؤنڈ سسٹمز، بے تحاشا کھانے، اور ویڈیو گرافی کے نام پر اسراف کی ایک ایسی اندھی دوڑ میں تبدیل ہو چکی ہے، جہاں نہ اعتدال باقی رہا، نہ مقصد۔ یہ وہ روش ہے جسے قرآنِ کریم کھلے الفاظ میں ناپسندیدہ قرار دیتا ہے: "ولا تسرفوا، إنه لا يحب المسرفين” (الاعراف: 31)۔ "اور اسراف نہ کرو، بے شک اللّٰہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا”۔ یہ آیت محض ایک اخلاقی نصیحت نہیں، بلکہ ایک الٰہی اعلان ہے ایسا اعلان جو ایک طرف ہمیں فضول خرچی سے خبردار کرتا ہے، اور دوسری جانب بتاتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کا قرب ان لوگوں کو نہیں ملتا جو دولت کے گھمنڈ میں ناپ تول بھول جاتے ہیں۔
فارم ہاؤسز کی یہ تقریبات اکثر مقابلے بازی کے جذبے سے کی جاتی ہیں: "پچھلی شادی فلاں فارم ہاؤس میں ہوئی تھی، ہم اس سے بہتر کریں گے…”۔ یہیں سے فضول خرچی کی دوڑ شروع ہوتی ہے، اور ایمان، سادگی، شرم و حیا اور برکت، سب پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے خوشیوں کو ناپنے کا پیمانہ اب روحانی مسرت یا خاندانی محبت نہیں، بلکہ بیرونی جھلک، مہمانوں کی تعداد، اور انسٹاگرام پر لائکس کی گنتی بن چکی ہے۔ دکھاوا اب نیتوں پر غالب آ چکا ہے، اور خرچ کرنا اب عبادت نہیں بلکہ نمائش کا ذریعہ ہے۔ یاد رکھیے! اسراف محض دولت کی بربادی نہیں، یہ دراصل نعمتوں کی ناشکری، دل کی بے اعتدالی اور معاشرتی توازن کی تباہی ہے۔ اسراف وہ زہر ہے جو خاموشی سے قوموں کی جڑیں کھوکھلی کرتا ہے۔ اگر ہم نے اس روش کو نہ بدلا، تو ہمارے بچّوں کو ایک ایسا معاشرہ ورثے میں ملے گا جہاں برکت ناپید، سکون مفقود، اور خوشی صرف تصویر کے فریم میں قید ہوگی۔
● معاشی تفاوت اور احساسِ کمتری: خاموش چیخوں کی بازگشت
ہر قوم کی اصل طاقت اس کا باہم ربط، اخوت اور مساوات ہے۔ جب یہ رشتے دکھاوے اور طبقات کے درمیان تقسیم ہونے لگیں، تو معاشرہ اندر سے ٹوٹنے لگتا ہے۔ فارم ہاؤس کلچر، جو بظاہر خوشیوں کا جشن ہے، درحقیقت مسلم سوسائٹی کے داخلی اتحاد کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا رہا ہے اور یہ نقصان ظاہری نہیں، بلکہ دلوں میں اترنے والی وہ خاموش چوٹ ہے جو وقت کے ساتھ ناسور بن جاتی ہے۔ اس نئے کلچر نے معاشی خطوط پر ایسی دیواریں کھڑی کر دی ہیں، جن کے ایک طرف وہ لوگ ہیں جو لاکھوں روپے خرچ کر کے تقریبات کو "ایونٹ” میں بدل دیتے ہیں، اور دوسری طرف وہ مجبور چہرے ہیں جن کے لیے کسی فارم ہاؤس کا کرایہ بھی زندگی بھر کی بچت کے برابر ہوتا ہے۔ لیکن دکھاوا، مقابلہ، اور "لوگ کیا کہیں گے” کے زہریلے نظریے نے ایسے خاندانوں کو بھی اس دوڑ میں شامل ہونے پر مجبور کر دیا ہے، جن کے قدم اس دوڑ کے لیے بنے ہی نہیں تھے۔
ایسے میں کئی مجبور دل، عزّت بچانے کے لیے قرض اٹھاتے ہیں۔ زیور بیچتے ہیں۔ زندگی بھر کی جمع پونجی محض ایک دن کی تقریب پر لٹا دیتے ہیں۔ سچ پوچھیے تو یہ سب "خوشی منانا” نہیں، بلکہ دکھ کی قیمت پر بنائی گئی خوشی کا خالی خول ہوتا ہے، جو چند گھنٹوں بعد راکھ ہو جاتا ہے، مگر قرض کی زنجیر برسوں پاؤں میں پڑی رہتی ہے۔ یہ وہ خاموش زخم ہے جو متوسط اور نچلے طبقے کے دلوں میں احساسِ محرومی اور احساسِ کمتری کی صورت میں گھر کر جاتا ہے۔ وہ سوچتے ہیں!! "کیا ہماری خوشی سچی نہیں؟ کیا ہمارا خلوص کم ہے؟ کیا ہماری بیٹی کی شادی اس لیے کمزور ہے کہ ہم فارم ہاؤس میں نہیں کر سکے؟”۔ یہ سوالات جب دلوں میں اترتے ہیں تو برادری، رشتہ داری، اور بھائی چارہ کی بنیادیں لرزنے لگتی ہیں۔ ایک ایسا طبقاتی نظام پروان چڑھتا ہے جو "اسلامی مساوات” کے حسن کو مسخ کر دیتا ہے۔
دولت کی غیر منصفانہ نمائش صرف دولت کا زیاں نہیں، یہ ایک سماجی فتنہ ہے جو عزّت نفس کو پامال کرتا ہے، اور رشتوں کے درمیان اعتماد کو زنگ آلود کر دیتا ہے۔ اسلام نے ہمیشہ سادگی، قناعت، اور اخوت کی تعلیم دی ہے۔ نبی کریمﷺ نے اپنی بیٹی فاطمہؓ کی شادی میں جو سادگی اختیار کی، وہ ہمارے لیے رہتی دنیا تک کے لیے ایک چراغ ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم نے اس چراغ کو بجھا دیا، اور بازاروں کی چکاچوند میں اپنے دلوں کو اندھیروں میں ڈال دیا۔ یہ کلچر نہ صرف پیسوں کی غیر منصفانہ تقسیم کو بڑھا رہا ہے، بلکہ عزّت کا پیمانہ بھی بدل رہا ہے اب نہ کردار اہم ہے، نہ دیانت، صرف فارم ہاؤس، کیٹرنگ، اور شو شوبازی۔ اگر ہم نے اس تفاوت کو نہ روکا، تو ایک ایسا معاشرہ جنم لے گا جہاں محبتیں قیمتوں پر تولی جائیں گی، اور رشتے سوشل اسٹیٹس کی بنیاد پر بنیں اور ٹوٹیں گے۔
● خاندانی نظام کا بحران: ایک نوحۂِ تہذیب و اقدار
آبگینۂ خاندان کبھی خلوص کی کھنک سے گونجتا تھا؛ سادگی کے خوش رنگ گل دان میں محبت کے پھول کھِلتے تھے اور گھر کے آنگن میں شرم و حیاء کی خوشبو رچی بسی رہتی تھی۔ مگر فارم ہاؤس کلچر کی چکاچوند نے اس آبگینے میں ایسی دراڑیں ڈال دی ہیں کہ رشتوں کی شفافیت ماند پڑنے لگی ہے۔
شادی بیاہ یا دیگر تقریبات میں مرد و خواتین کا بے محابا میل جول اب معمول ہو گیا ہے۔ وہ فصیلِ پردہ جو کبھی غیرتِ ایمانی کی علامت تھی، اب فقط رسمی سا پردۂ غبار رہ گئی ہے۔ قہقہوں اور سہرے کے سنگیت کے شور میں شرم و حیاء کے آہنی دروازے کھٹکاتے بھی نہیں کہ کہیں سے کوئی دستک سنائی دے۔ نوجوان نگاہوں کی بے راہ روی کو "روشن دماغی” کا نام دیتے ہیں، مگر حقیقت میں یہ حیاسوز بے مہاری اُن کے باطن میں زوال کے بیج بوتی ہے۔ جہاں کیمروں کی فلش لائٹس بجلی کی کڑک بن کر ٹمٹماتی ہیں، وہاں تلاوت کی آیات، درود و سلام کے نغمے اور دعاؤں کی سرگوشیاں دب کر رہ جاتی ہیں۔ اسٹیج پر ڈانس فلور بننے لگے ہیں؛ ڈھول کی تھاپ اور ڈی جے کی گونج نے سکونِ قلب کے زمزموں کو ڈبو دیا ہے۔ شریعت کی باریک دھاری تلوار یہاں کند کر دی جاتی ہے صرف اس لیے کہ "تقریب یادگار” بن جائے۔
جب آنکھوں کو نگاہ نیچی رکھنے کی تربیت نہ ملے، تو جذبات کے سمندر میں فتنے کے طوفان اٹھنا ہی اٹھنا ہیں۔ سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ ہونے والے ویڈیوز اور تصویر کشی کی دوڑ میں حیاء کی چادر بارہا قدموں تلے آجاتی ہے۔ یہی منظر نوجوان ذہنوں میں مستقل اَنگڑائی لیتا رہتا ہے اور اخلاقی حسّاسیت کو بے حِس کر دیتا ہے۔ وہ رشتے جن کا مدار احترام، یقین اور حفاظتِ دل تھا، اب محض "کانٹینٹ” یا "ایونٹ” کے کیپشن بن کر رہ گئے ہیں۔ شکوہ و شکایت اور اونچی توقعات کی نمی جب دیواروں میں اُترنے لگے تو مکاں کی بنیادیں آہستہ آہستہ بیٹھنے لگتی ہیں۔ رسم و رواج کا بوجھ، تحائف کی نمائش، لوازمات کی فہرست یہ سب مل کر خاندانی تعلق کو سوداگری کی منڈی میں لے جاتے ہیں؛ جہاں محبت کی قیمت، تحفے کے ریٹ ٹیگ اور کھانے کے مینیو سے لگائی جاتی ہے۔
اگر ہم نے پھر سے سنّت کی سادگی اور دینی وقار کا دامن نہ تھاما تو وہ وقت دور نہیں جب معاشرے کے دسترخوان پر صرف خالی برتن رہ جائیں گے برکت رخصت ہو چکی ہو گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ گھرانوں کے بزرگ، خطبا اور اہلِ دانش اس روش پر کھلے دل سے گفتگو کریں، پردے اور حیاء کی اہمیت کو پھر سے اجاگر کریں، اور خوشیوں کو تقویٰ کے چراغ میں ڈھالیں۔ وہی تقریب بابرکت ہے جو اخلاص کی خوشبو سے مہکے، جس میں دعاؤں کی رم جھم برسے، جہاں دل جھکیں، سر عَجز سے خم ہوں، اور آنکھوں میں نورِ ایمان کی چمک ہو۔ تبھی خاندانی نظام کی بکھری مالا کے دانے دوبارہ ایک رشتے میں پروئے جا سکیں گے، اور گھر پھر سے اُنس، امن اور رحمت کے گہوارے بنیں گے۔
● ضمیرِ مردہ، دلِ بے نور: چراغِ تقویٰ کی بجھتی لو
وہ تقریبات جو کبھی دلوں کی تطہیر اور رحمتِ الٰہی کے نزول کا وسیلہ تھیں عقیقے کی خوشبو، میلاد کی نعتیں، ختمِ قرآن کی سرشاری اب ایک ایسے ہنگامِ بے مقصد میں بدلتی جا رہی ہیں جہاں چراغ تو روشن ہیں، مگر ان کی لو میں روح کا نور نہیں۔ عقیقہ تھا تو بچّے کے کان میں اذان گونجتی، ماؤں کی دعاؤں کے آنچل لہراتے، اور صدقۂ شکر کا گوشت مساکین تک پہنچتا، مگر اب گویا ایک "ایونٹ پیکیج” بن گیا ہے!!! ڈیکور کی کمپنی، کیٹرر، ڈی جے، اور فوٹوگرافر کی فہرست پہلے طے ہوتی ہے، ذکرِ الٰہی کی ترتیب بعد کی بات رہ جاتی ہے۔ میلاد کی محفل ہو یا ختمِ بخاری، تلاوت اور درود کی محجوب صدائیں ڈی جے کے بے رحمانہ بیٹس میں دب جاتی ہیں۔ دل کی نرمی، اشکوں کی نمی اور اِخلاص کی لطافت، سب کچھ اس اسٹیج لائٹ کی تیز روشنی میں گم ہو جاتا ہے۔
اُن یادگار مجلسوں میں جہاں "سبحان اللّٰہ” کی ہلکی گونج سے روح مسکرا اٹھتی تھی، آج غیبت کی چہ مگوئیاں، موبائل سیلفیوں کی قطاریں اور بے تکلف ہنسی کے فوارے اُبلتے ہیں۔ ہاتھوں میں تسبیح کی جگہ سوشل میڈیا لائیو اسٹریم کا بٹن دبا ہوتا ہے۔ اور جب محفل برخاست ہو، تو تھکن جسم کی نہیں، روح کی ہوتی ہے کیونکہ دل کو کوئی غِذا ملی ہی نہیں۔ یہ نیا چلن دراصل تقویٰ سے دوری اور دنیا پرستی کے بڑھتے ہوئے سیلاب کا پتہ دیتا ہے۔ شریعت کے مقاصد کا چراغ اگر دل کے حجرے میں بجھنے لگے تو باقی رہتا ہے صرف رسوم کا دھواں جو آنکھوں کو تو بھاری کرتا ہے، مگر راستہ دکھانے والی روشنی نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی تقریبات کے بعد نہ برکت کا احساس رہتا ہے، نہ دل کو قرار، بس اخراجات کی رسیدیں اور تھکاوٹ کا بوجھ رہ جاتا ہے۔
فرمانِ نبویﷺ ہے: "اَلدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ” مومن کے لیے دنیا قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنّت۔ مگر ہم نے اسی قید خانے کو اپنا مستقل مسکن بنا لیا، اور جنّتِ آخرت کے حسیں خواب بھلا بیٹھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خوشیوں کو ذکر و شکر کے پانی سے سیراب کریں، اور ہر تقریب میں سب سے پہلے نیت کی درستی اور سنّت کی پیروی کو جگہ دیں۔ عقیقے میں مساکین کو یاد کیجیے، میلاد میں درود و سلام کو مرکز بنائیے، اور ہر خوشی میں آنکھِ دل کو اس یقین سے روشن رکھیے کہ اصل مہمانی ربّ العالمین کی رضا ہے، نہ کہ مخلوق کی واہ واہ۔ جب محافل کا دل تقویٰ کے نور سے منور ہو جائے، تبھی روحانی محرومی کے اندھیرے چھٹیں گے، اور ہمارے گھروں میں پھر سے سکینت کے فرشتے اُتریں گے۔
● ماحولیاتی و زمینی اسراف: نعمتوں کی ناقدری، زمین کی فریاد
یہ زمین جو صدیوں سے ہمیں تھامے ہوئے ہے، یہ ہوائیں جو ہمیں راحت دیتی ہیں، اور یہ پانی جو زندگی کی رگوں میں رواں ہے یہ سب اللّٰہ کی امانتیں ہیں۔ لیکن فارم ہاؤس کلچر کی چکاچوند میں ان امانتوں کی قدر کہیں دفن ہوچکی ہے۔ عارضی خوشیوں کے نام پر زمین کا سکون، فطرت کی ترتیب، اور وسائل کی برکت سب کچھ بے دردی سے روندے جا رہے ہیں۔ ایک دن کی تقریب، چند گھنٹوں کا جشن، لیکن اس کے پیچھے بجلی کی ہزاروں یونٹس، پانی کے سیکڑوں لیٹر، اور قدرتی وسائل کا بے دریغ زیاں یہ سب گویا ایک عارضی چمک کے لیے زمین کی سانس گھوٹنے کے مترادف ہے۔ روشنیوں کی لڑیوں سے سجے درخت، قہقہوں سے گونجتے ہال، اور بلند آوازوں میں چلتے اسپیکر بظاہر دل بہلاتے ہیں، مگر ماحول کی خاموش فریاد کسی کے کانوں تک نہیں پہنچتی۔
تقریبات میں طرح طرح کے کھانے سجے ہوتے ہیں: بریانی، نان قلیہ، گوشت مانڈہ، حلیم، کباب، مٹھائیاں، فائیو اسٹار ڈیزرٹس لیکن ان میں سے آدھا بچا ہوا کھانا یا تو کوڑے دان کی نذر ہو جاتا ہے، یا کسی کے دوبارہ استعمال کے قابل ہی نہیں چھوڑا جاتا۔ وہی نعمت جس کے ایک ایک دانے کے لیے کروڑوں انسان تڑپتے ہیں، وہ دعوتوں کی پلیٹوں سے پھسل کر زمین پر جا گرتی ہے۔ یاد رکھیے، رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا: "نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ: الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ”۔ "دو نعمتیں ہیں جن کی قدر اکثر لوگ نہیں کرتے: صحت اور فراغت” (بخاری)۔ اور اگر ہم اس میں "کھانا” کو بھی شامل کریں، تو یقیناً ہم ان میں سے ہیں جو روز نعمتوں کی بے قدری کے مرتکب ہوتے ہیں۔
زمین خاموش ہے، مگر اس کی خاموشی بےحسی نہیں، ضبط ہے۔ وہ ہر ضائع کیے گئے دانے، بہائے گئے پانی، اور جلائے گئے وسائل کا حساب رکھ رہی ہے۔ قرآن ہمیں خبردار کرتا ہے: "ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ”۔”خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا ہے، ان اعمال کے باعث جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمائے” (الروم: 41)۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی تقریبات کو زمین کے حقوق کے ساتھ ہم آہنگ کریں۔ بجلی و پانی کا استعمال احتیاط سے ہو، کھانے کا انتظام مہمانوں کی اصل تعداد کے مطابق ہو، اور بچا ہوا کھانا مستحقین تک پہنچایا جائے، تاکہ ایک لمحے کی خوشی کسی کی بھوک مٹا دے، زمین کا بوجھ نہ بنے۔ جب تقریبات صرف دکھاوے کے بجائے شکر گزاری کا وسیلہ بنیں، تو نہ صرف ماحول محفوظ رہے گا بلکہ دعاؤں کی بارش، نعمتوں کی حفاظت اور روحانی خوشبو بھی ان محفلوں کو مہکاتی رہے گی۔ یہی وہ طرزِ زندگی ہے جو اسلامی تہذیب اور فطرت کی امانت کا حسن ہے۔
● خوشی کی محفل یا سنّت کی محفل؟ ایک انتخاب
جب دکھاوے کے ہجوم میں دل گھٹنے لگے، جب خوشیوں کے نام پر برکتیں رخصت ہونے لگیں، اور جب تقریبات بوجھ بن جائیں تو یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب ہمیں رک کر اپنے قدموں کا رخ سنّت کی طرف موڑنا ہوتا ہے۔ کیونکہ اصل نجات، اصل سکون، اور اصل عزّت اسی راستے میں ہے جسے رسولِ اکرمﷺ نے اپنے عمل سے روشن کیا۔ اسلامی تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ اصل حسن سادگی میں ہے۔ وہ سادگی جو دل کو ہلکا کرتی ہے، نیت کو خالص بناتی ہے، اور اللّٰہ کی رحمت کو دعوت دیتی ہے۔ شادی ہو یا عقیقہ، میلاد ہو یا سالگرہ، اگر یہ تقریبات قناعت، شکر اور وقار کے ساتھ منائی جائیں، تو وہ نہ صرف روح کو سرشار کرتی ہیں بلکہ معاشرے میں خیر و برکت بھی پھیلاتی ہیں۔
رسول اللّٰہﷺ کی بیٹی، حضرت فاطمہ الزہراؓ کی شادی جس میں نہ کوئی قیمتی جہیز تھا، نہ ریشمی پردے، نہ چمکتے چراغ، صرف سادگی، دعا، اور محبت کا نور تھا وہ آج بھی دنیا کے لیے ایک مثالی تقریب ہے۔ اگر ہم اسی طرز کو اختیار کریں، تو نہ قرض کا بوجھ ہوگا، نہ دکھاوے کی دوڑ، بلکہ رضائے الٰہی کی ٹھنڈی چھاؤں میں ہم خوشیوں کا جشن منائیں گے۔ تقریبات اگر گھروں میں ہوں یا مسجدوں کے پرنور ہالوں میں، تو ان میں ایک الگ روحانیت، ایک خاص اپنائیت، اور ایک خاموش دعا شامل ہو جاتی ہے۔ نہ صرف اخراجات میں کمی آتی ہے بلکہ رشتے بھی خلوص سے جڑتے ہیں۔ یہ مختصر محفلیں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ دین نے ہمیں آسانی کا دین عطا کیا ہے، نہ کہ رسمی بوجھ کا۔
"اسٹیٹس” نہیں، "سنّت” اہم ہے!!! ہمیں معاشرے کے اس تصور کو چیلنج کرنا ہوگا جس میں عزّت کا معیار مہنگی تقریب، بڑا ہال، یا قیمتی فوٹوگرافی ہے۔ اصل عزّت تو اس میں ہے کہ ایک مسلمان سنّتِ نبویﷺ کے قدموں پر چلنے کا عزم کرے، چاہے دنیا اسے کتنا ہی سادہ کیوں نہ سمجھے۔ "من تشبہ بقومٍ فہو منہم”۔ "جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے، وہ انہی میں سے ہوتا ہے”۔ اگر ہم مغربی معاشرتی نمونوں کے بجائے اپنے نبیﷺ کے اسوہ کو اپنائیں، تو یہ صرف دینی فخر نہیں بلکہ ایک فکری آزادی بھی ہے کہ ہم اپنی اقدار پر کھڑے ہیں، اور کسی مصنوعی معیار کے قیدی نہیں۔ تقریبات تو دل کے رنگ ہوتے ہیں، مگر جب یہ رنگ تقویٰ کے کینوس پر بکھرتے ہیں، تو وہ صرف لمحاتی خوشی نہیں، ہمیشہ کی برکت بن جاتے ہیں۔ آئیے! ہم اس سادگی، اس پاکیزگی، اور اس سنّت کی طرف واپس لوٹیں، جو صرف ہماری نہیں، ہماری نسلوں کی بھی حفاظت کرے گی۔ کیونکہ آخر میں رضائے الٰہی ہی سب سے بڑا "اسٹیٹس” ہے۔
❖ فارم ہاؤس کلچر: چمکتی محفلوں کے پیچھے بجھتے چراغ
آج کے مسلم معاشرے میں "فارم ہاؤس کلچر” محض ایک تقریب کا انتخاب نہیں، بلکہ ایک طرزِ فکر، ایک تہذیبی رجحان، اور ایک نئی شناخت کا مدّعی بن چکا ہے۔ بظاہر یہ جدیدیت، ترقی اور "اسٹیٹس” کا مظہر دکھائی دیتا ہے، مگر اگر اس کی بنیادوں میں جھانکا جائے تو وہاں سادگی کے بجائے دکھاوا، عبادت کے بجائے ناچ گانا، اور قناعت کے بجائے اسراف و فضول خرچی کی ریت بھری ہوئی ہے۔ یہ کلچر ایک ایسے نفسیاتی بوجھ کو جنم دیتا ہے جو نہ صرف متوسط طبقے کے دلوں میں احساسِ کمتری کی لکیر کھینچتا ہے، بلکہ خاندانی نظام کی بنیادوں میں بھی دراڑیں ڈال دیتا ہے۔ شادی بیاہ کی تقریبات جو کبھی خاندانوں کو جوڑنے، دعاؤں اور برکتوں کے ذریعے نئی زندگیاں سنوارنے کا ذریعہ تھیں، اب مقابلہ بازی، سوشل میڈیا شو، اور کیمروں کی آنکھ کو مطمئن کرنے کی کوشش بن کر رہ گئی ہیں۔
یہ تہذیب جسے ہم "جدید” سمجھ بیٹھے ہیں، درحقیقت روحانی کھوکھلے پن، معاشی ناہمواری اور دینی غفلت کا ایسا امتزاج ہے جو نہ صرف ہمارے انفرادی کردار کو متاثر کر رہا ہے بلکہ اُمّتِ مسلمہ کی اجتماعی شناخت کو بھی دھندلا رہا ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جن کے نبیﷺ نے کھجور کے پتوں پر گزارا کیا، جنہوں نے شادی کے موقع پر سادگی کو باعثِ فخر سمجھا، اور جن کے دل اللّٰہ کی یاد سے معطر رہتے تھے، نہ کہ ہال کی خوشبو سے۔ مگر آج ہم نے اُس روشن ورثے کو ترک کر کے چمکتے پردوں، فلور لائٹس اور مہنگی تقاریب کو اپنی عزّت کا معیار بنا لیا ہے۔ یہ روش نہ صرف دین سے دوری کا مظہر ہے بلکہ دنیاوی فریب میں کھو جانے کا استعارہ بھی۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم بطورِ اُمّت اپنے طرزِ زندگی کا ازسرِنو جائزہ لیں۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کیا ہم واقعی ایسی تقریبات چاہتے ہیں جو ہماری روحانی پیاس کو مزید بڑھا دیں؟ یا ہم اُن خوشیوں کے متلاشی ہیں جن پر اللّٰہ کی رحمت اور نبیﷺ کی سنّت کی چھاپ ہو؟ ہمیں ایسے فیصلے درکار ہیں جو دین و دنیا کے درمیان توازن کو بحال کریں۔ ہم اگر خلوص، سادگی اور سنّت کی طرف لوٹ آئیں، تو نہ صرف فضول خرچی کا سیلاب رُکے گا، بلکہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو بھی وہ تہذیب دے سکیں گے جس کی بنیاد تقویٰ، عدل، قناعت اور حیاء پر ہو۔ فارم ہاؤس کی چمک دمک وقتی ہے، مگر سنّتِ نبویﷺ کی سادگی ابدی۔ "اسٹیٹس” کی دنیا فانی ہے، مگر "رضائے الٰہی” کی دنیا باقی ہے۔
مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)
masood.media4040@gmail.com