مہاراشٹرا
ریاست شملہ کا انقلابی تعلیمی قدم: اخبار بینی اب لازم”۔
"علم کے ساتھ آگہی کا نیا سفر، روزانہ اخبار مطالعہ کی لازمی اسکولی پالیسی"۔

عقیل خان بیاولی، موظف صدر مدرس، جلگاؤں
ریاست شملہ نے حالیہ دنوں تعلیم کی دنیا میں ایک غیر معمولی اور بصیرت افروز قدم اٹھایا ہے، جو آنے والے وقتوں میں نہ صرف ریاستی طلبہ کی ذہنی نشوونما بلکہ قومی تعلیمی منظرنامے پر بھی خوش آئند اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
شملہ کے وزیر اعلیٰ سکھ وریندر سنگھ سکھ نے جب ضلع کللو کے ایک سرکاری اسکول کا دورہ کیا تو ایک کڑوی حقیقت ان کے سامنے آئی۔ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ اسکول کے طلبہ معلوماتِ عامہ، حالاتِ حاضرہ اور روزمرہ کی سادہ سادہ باتوں سے بھی ناواقف ہیں۔ یہی لمحہ فکر انہیں ایک عملی اور قابلِ تقلید فیصلے کی طرف لے گیا: تمام سرکاری اور امدادی اسکولوں میں روزانہ اخبار بینی کو لازمی قرار دیا جائے۔ یہ فیصلہ محض رسمی نہیں بلکہ فکری تبدیلی کی بنیاد ہے۔ روزمرہ اخبار پڑھنے کا عمل نہ صرف معلومات میں اضافہ کرے گا، بلکہ طلبہ کی زبان و بیان کی صلاحیتوں، تنقیدی سوچ، حالاتِ حاضرہ سے باخبری، اور مسابقتی امتحانات کی تیاری میں بھی انقلابی کردار ادا کرے گا۔ حکومتی ہدایات کی جھلک:ہر اسکول میں روزانہ کم از کم ایک مادری زبان اور ایک انگریزی اخبار کی دستیابی لازمی قرار دی گئی ہے۔
طلبہ کو روزانہ 10 تا 15 منٹ اخبارات کے مطالعے کے لیے مختص کیے جائیں گے۔ قومی بین الاقوامی، سائنسی، ماحولیاتی اور کھیلوں سے متعلق خبروں پر توجہ دی جائے گی۔ زبان دانی کے فروغ کے لیے دو زبانوں (مادری و انگریزی) میں ترغیب دی جائے گی۔اس فیصلے کے پس منظر میں ریاستی تعلیمی کمشنر کا بیان بھی قابلِ غور ہے، جنہوں نے واضح کیا کہ بدلتے تعلیمی منظرنامے میں محض نصابی تعلیم کافی نہیں۔ ایک باخبر، باصلاحیت اور بصیرت افروز نسل کی تیاری کے لیے مطالعہ، بالخصوص روزانہ اخبار بینی، ایک ناگزیر ضرورت ہے۔
مشاہدے سے تعبیر تک:
یہ فیصلہ صرف نئی نسل کے لیے نہیں بلکہ تمام اہلِ علم، اساتذہ، سرکاری ملازمین، حتیٰ کہ عام شہریوں کے لیے بھی ایک پیغام ہے۔ افسوس کہ ہم نے خود دیکھا ہے کہ بہت سے تعلیم یافتہ افراد بھی اخبار بینی سے کتراتے ہیں، خاص طور پر اردو میڈیم طبقہ، جو اردو اخبارات و رسائل کی اہمیت و اقسام سے بھی ناآشنا ہیں۔ مجھے اپنے تعلیمی دور کا وہ زمانہ بخوبی یاد ہے جب ہمارے ادارے کے کے اردو گرلز ہائی اسکول و جونیئر کالج میں بانی مرحوم ڈاکٹر امان اللہ شاہ کی رہنمائی میں ایک مکمل "شعبۂ نثر و اشاعت” قائم تھا۔ جو تا دمِ تحریر قایم ہے اتنا ہی نہیں تو آج یہ "حجن مہ جبین قاضی لائیبریری” قائم ہو چکی ہے ہم اساتذہ کرام کی ذمہ داری تھی کہ تخت سیاہ پر مقامی ریاستی و قومی خبریں تحریر کریں وہاں اس مقصد کی تکمیل کے لۓ ہم اساتذہ گیٹ پر ہاکر کا انتظار کرتے، خبریں نوٹس بورڈ پر آویزاں کی جاتیں، اور طالبات ان سے متاثر ہوکر کچھ نیا سوچنے اور کرنے کی سمت بڑھتیں۔ وہی مطالعہ تھا جس نے زبان، شعور، اور بصیرت کو جلا دی۔
اخبار: علم کا آئینہ، آگہی کا دروازہ۔۔آج جب شملہ کی ریاستی حکومت نے اس فکر کو عملی جامہ پہنایا ہے تو یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ کیا ہم واقعی اپنے تعلیمی اداروں میں "مطالعے کو معمول” بنا پا رہے ہیں؟ کیا ہمارے طلبہ عالمی منظرنامے سے جُڑے ہیں؟ اگر نہیں، تو یہ پہل ہماری آنکھیں کھولنے والی ہونی چاہیے۔
حکومت شملہ کا یہ حکم محض احکامِ بالا کا معاملہ نہیں بلکہ تعلیمی وژن کا وہ ستون ہے جس پر ایک باخبر، باشعور اور مہذب معاشرہ تعمیر ہو سکتا ہے۔مطالعہ صرف نصابی کتابوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ اخبارات کے ذریعے دنیا سے رابطہ اور آگہی کی راہ ہموار ہونی چاہیے۔ یہ پہل ایک خاموش تعلیمی تبدیلی کی بنیاد ہے، جسے ہر ریاست کو، ہر ادارے کو، اور ہر استاد کو، بغیر کسی حکم کے، خود بخود اپنانا چاہیے۔”جو پڑھیں گے، وہ بڑھیں گے، اور جو باخبر ہوں گے، وہی بہتر کل بنائیں گے!”
علم کی روح، آگہی کی روشنی، اور بصیرت کی بلندی ، یہی ہے شملہ کے فیصلے کا اصل پیغام!۔
"آئیں علم و ادب کو فروغ دیں
اخبارات ورسائل خرید کر پڑھیں”