جے این یو طالب علم نجیب احمد کی گمشدگی کا کیس بند، عدالت نے سی بی آئی کی کلوزر رپورٹ قبول کر لی

نئی دہلی، 30 جون 2025: جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے گمشدہ طالب علم نجیب احمد کی تلاش میں کئی برسوں سے جاری قانونی عمل آج ایک نئے موڑ پر آ کر رک گیا۔ دہلی کی راؤز ایونیو کورٹ نے اس معاملے میں سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کی طرف سے داخل کی گئی کلوزر رپورٹ کو منظور کر لیا ہے، جس کے ساتھ ہی یہ مقدمہ باضابطہ طور پر بند کر دیا گیا۔
ایڈیشنل چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ جیوتی مہیشوری نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا: ’’عدالت سی بی آئی کی رپورٹ قبول کرتی ہے، تاہم اگر مستقبل میں اس کیس سے متعلق کوئی نیا یا قابل اعتبار ثبوت سامنے آیا تو معاملہ دوبارہ کھول جا سکتا ہے۔‘‘
9 سال بعد بھی نجیب کا کوئی سراغ نہیں نجیب احمد، جو 15 اکتوبر 2016 کو جے این یو کے ماہی-مانڈوی ہاسٹل سے پراسرار طور پر لاپتہ ہو گیا تھا، تاحال لاپتہ ہے۔ وہ اس وقت ایم ایس سی (بایو ٹیکنالوجی) کا طالب علم تھا۔ گمشدگی سے ایک دن قبل اس کا تصادم جے این یو کیمپس میں اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) کے مبینہ کارکنوں کے ساتھ ہوا تھا۔ اس واقعے کے بعد وہ اچانک لاپتہ ہو گیا، جس کے بعد جے این یو سمیت ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے اور سیاسی ردعمل دیکھنے کو ملا۔
تحقیقات کی ناکامی ابتدائی تفتیش دہلی پولیس کے ذریعے کی گئی، لیکن خاطر خواہ پیش رفت نہ ہونے کے سبب 16 مئی 2017 کو دہلی ہائی کورٹ نے کیس کی تفتیش سی بی آئی کو سونپ دی۔ سی بی آئی نے 29 جون 2017 کو نجیب کے سراغ دینے والے کو 10 لاکھ روپے انعام دینے کا اعلان بھی کیا، لیکن اس کے باوجود کوئی ثبوت یا سراغ نہیں ملا۔
آخرکار، اکتوبر 2018 میں سی بی آئی نے کیس بند کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کلوزر رپورٹ داخل کی، جس میں یہ کہا گیا کہ نجیب کی گمشدگی سے متعلق کوئی مصدقہ سراغ حاصل نہیں ہو سکا۔ آج 30 جون 2025 کو عدالت نے یہ رپورٹ باقاعدہ طور پر منظور کر لی۔
ماں فاطمہ نفیس کا ردعمل نجیب احمد کی والدہ فاطمہ نفیس نے سی بی آئی کی کارکردگی پر ابتدا سے ہی سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ
’’یہ کیس سیاسی دباؤ میں آ کر بند کیا گیا۔ سی بی آئی سچ کی تلاش کے بجائے طاقتوروں کے مفادات کی نگہبان بن چکی ہے۔‘‘
انہوں نے کئی مواقع پر سڑکوں پر احتجاج کیا اور عدلیہ سے انصاف کی اپیل کی، لیکن اب عدالت کے اس فیصلے سے ان کی امیدوں کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔
سیاسی و سماجی حلقوں میں مایوسی اس فیصلے پر سماجی کارکنوں، طلبہ تنظیموں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ نجیب کا لاپتہ ہونا محض ایک فرد کا معاملہ نہیں بلکہ یہ ایک پورے نظام، تعلیمی ماحول اور اقلیتوں کے تحفظ سے جڑا ہوا مسئلہ ہے۔