ادے پور فائیل نامی فلم ” توہین رسالت” پرمبنی۔۔۔۔۔

مفتی اظہارالحق قاسمی ناندیڑ
فلمیں، جو کہ فن اور تفریح کا ایک طاقتور ذریعہ ہیں، نہ صرف کہانیاں سنانے کا کام کرتی ہیں بلکہ ہمارے خیالات، تصورات اور معاشرتی رویوں کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو دنیا کے بارے میں ہمارے نظریات کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اور بدقسمتی سے، بعض اوقات اس کا استعمال مخصوص مذاہب یا برادریوں کے بارے میں غلط معلومات پھیلانے یا انہیں بدنام کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اسلام، دنیا کے بڑے مذاہب میں سے ایک ہونے کے ناطے، اکثر فلموں میں منفی اور غیر حقیقی انداز میں پیش کیا جاتا ہے، جس کے عالمی سطح پر سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
توجہ کرنے کی ضرورت کیوں ہے۔۔۔۔
مسلمانوں کو اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت اس لئے ہے کہ آج کے دور میں ہر شخص کے پاس کسی نہ کسی شکل میں اسکرین موجود ہے ۔اور 9.99%افرادبلکہ100% افراد بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔اسکرین سے جڑے ہوئے ۔ایسی صورتحال میں کوئی بھی نیا ویڈیو یا کسی بھی فلم کے حصے موبائیل میں بار بار آتے ہیں۔اس طرح پوری قوم کو کسی بھی ایک نظرئیے سے متاثر کرنا اور اس پر آمادہ کرنا بہت آسان کام بن گیا ہے ۔
غلط فہمیاں بدگمانیاں اسلام سے دوری کے سبب
اسلام کو فلموں میں بدنام کرنے کی ایک بڑی وجہ اس مذہب کے متعلق غلط فہمیاں اور بد گمانیاں ہیں۔ بہت سی فلموں میں مسلمانوں کو شدت پسند، دہشت گرد یا پسماندہ افراد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ تصویر کشی حقیقت سے کوسوں دور ہے اور دنیا بھر کے اربوں پرامن مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتی۔ اس قسم کی فلمیں اکثر مخصوص ذہنیت یا سیاسی ایجنڈوں کے تحت بنائی جاتی ہیں، جو کہ عالمی سامعین کے ذہنوں میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں منفی تاثرات پیدا کرتی ہیں۔
کہانیوں میں ہیرو اور ولن کی تقسیم
ہالی ووڈ اور دیگر عالمی فلمی صنعتوں میں کہانیوں کی ایک عام ساخت ہیرو اور ولن کی تقسیم پر مبنی ہوتی ہے۔ کچھ فلموں میں مسلمانوں کو ولن کے طور پر دکھایا جاتا ہے، اور ان کے مذہب کو ان کے منفی اعمال کی بنیاد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے کیونکہ یہ ناظرین کو یہ باور کراتا ہے کہ اسلام بذات خود ایک پرتشدد مذہب یا خطرہ ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی مذہب سے بڑھ کر ، اسلام امن، ہم آہنگی اور انصاف کی تعلیم دیتا ہے۔ کسی خاص مذہب کے پیروکاروں کو ایک خاص سانچے میں ڈھالنا نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ یہ معاشرتی تفریق کو بھی بڑھاتا ہے۔
تاریخ کی غلط تشریح
بعض فلمیں تاریخی واقعات کی غلط تشریح کرتی ہیں یا انہیں توڑ مروڑ کر پیش کرتی ہیں تاکہ اسلام کو منفی روشنی میں دکھایا جا سکے۔ یہ تاریخ کو من پسند طریقے سے پیش کرنا ناظرین کو غلط معلومات فراہم کرتا ہے اور انہیں اسلام اور مسلمانوں کے کردار کو سمجھنے سے روکتا ہے۔ یہ خاص طور پر اس وقت زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے جب یہ فلمیں بڑے بجٹ کے ساتھ تیار کی جاتی ہیں اور عالمی سطح پر ریلیز ہوتی ہیں، کیونکہ یہ وسیع پیمانے پر غلط فہمیاں پیدا کرتی ہیں۔
میں نے یہ مضمون کیوں لکھا
گزشتہ کل میرے واٹس ایپ پر ایک ویڈیو آئی جس پر مخصوص عنوان لگا ہوا تھا دیکھنے پر معلوم ہوا کہ یہ "ادے پور فائل” نام کی کوئی فلم ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ فلم کے اندر توہین رسالت، توہین اسلام توہین علماء ،توہین مساجد جو کچھ بھی ہو سکتا تھا کیا گیا ہے ۔اس مختصر سی ویڈیو دیکھنے کے بعد میرا تاثر یہ تھا کہ فلم کے ڈائریکٹر پروڈیوسر ایکٹر ایکٹریس الغرض پوری کاسٹ ہی پر کارروائی کر نا چاہیے ۔یہ خیال دل میں بار بار تقویت پانے لگا یہ سوچ بار بار آنے لگی کہ آخر یہ کیسے لوگ ہیں؟ کس حد تک گر سکتے ہیں ؟اور ان میں اتنی ہمت آئی کہاں سے ہے ؟سنسر بورڈ نے اس کی اجازت کیسے دی؟ مسلمانوں کو پچھلے دنوں نوپور شرما نامی خبیث عورت نے جس طرح توہین رسالت کر کے تکلیف پہنچائی اس واقعے کو مزید گھناؤنا بنا کر فلمایاگیا۔ گیان واپی مسجد کے سانحے کو مزید گھناونا بنا کر فلمایا گیا اسی طرح معاشرے میں ہونے والے بعض تکلیف دہ واقعات کو مزید سنگین بنا کر فلمایا گیا۔
بلبل کی فریاد
میری تمام اسلامی تنظیموں سے یہ گزارش ہے خاص طور سے مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمعیعت علماء ہند جمیعت اہل حدیث ،جماعت اسلامی جماعت تبلیغ، ایس ڈی پی ائی اور جو بھی چھوٹی بڑی تنظیم ضلع سطح کی ہو یا صوبائی وملکی سطح کی ہو اس ذمہ داری کو سمجھیں، توہین رسالت کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے اور اس کو فلما کر پیش کرنا اسے مزید سنگین بنا دیتا ہے، یہ توہین رسالت کے بار بار ہونے کو بڑھاوا دیتا ہے ،مسلمان تصور میں بھی توہین رسالت کو برداشت نہیں کرتا چہ جائے کہ اس کو تماشہ بنا کر فلمایا جائے، اس لیے میری گزارش ہے، ہر شہر سے ایف ائی ار درج کروائی جائے، ہر شہر کی کی عدالت سے اس فلم کے بنانے والوں اور سینسر بورڈ پر کاروائی کی مانگ کی جائے اور ہر شہر سے ان کو نوٹس بھیج کر ابھی نہ روکا گیا تو یقین جانیں کہ اس کا روکنا مشکل ہو جائے گا ۔ بالفرض اگر عدالت سے کوئی کاروائی نہیں ہوتی تو اسے بزور شمشیر روکا جانا چاہیے اور یہ اتنا بڑا فتنہ ہے کہ اس کے ابھرنے سے پہلے اس کو روک دیا جانا چاہیے کیونکہ فتنہ قتل و غارت گری سے بڑھ کر ہے”والفتنة اشد من القتل” اور فتنہ قتل سے شدید ہے۔ جس طرح این ار سی اور سی اے اے مسلمانوں کے وجود و بقا کا مسئلہ ہے اس سے زیادہ سنگین اور حساس مسئلہ یہ موضوع ہے(توہین رسالت) ۔اس سے زیادہ سنگین اور حساس مسئلہ اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔مسلمانوں کو جلد از جلد بیدار ہو کر وقت سے پہلے اس پر کاروائی کی مانگ کرنی چاہیے ۔بلکہ اس کا ٹریلر جاری کرنے کی وجہ سے ان لوگوں پر فرد جرم عائد کرنے کی مانگ کرنی چاہیے ورنہ ہو سکتا ہے کل کو دیر ہو جائے اور ہم کچھ نہ کر پائیں۔
سماجی اور سیاسی اثرات
فلموں میں اسلام کی منفی تصویر کشی کے سماجی اور سیاسی سطح پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ اسلامو فوبیا کو بڑھاوا دیتی ہے، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے خلاف تعصب، نفرت اور تشدد میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ مسلمانوں کے درمیان اپنے مذہب اور شناخت کے حوالے سے احساسِ محرومی پیدا کر تی ہے، خاص طور پر نوجوان نسل میں۔ سیاسی طور پر، یہ تصویر کشی بعض ممالک کی پالیسیوں اور عوامی رائے کو بھی متاثر کر سکتی ہے، خاص طور سے ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے حقوق اور مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ذمہ دارانہ فلم سازی کی ضرورت
فلم سازوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے کام میں حساسیت اور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ یہ ضروری ہے کہ وہ کسی بھی مذہب یا برادری کو بدنام کرنے سے گریز کریں اور حقیقت پر مبنی، متوازن اور منصفانہ کہانیاں پیش کریں۔ متنوع ثقافتوں اور مذاہب کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے اور دقیانوسی تصورات کو چیلنج کرنے کے لیے فلموں کا مثبت استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے تحقیق، مکالمے اور مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ تعاون کی ضرورت ہے۔
نتیجہ
فلمیں معاشرتی رویوں کو متاثر کرنے کی بے پناہ طاقت رکھتی ہیں۔ جب اسلام کو فلموں میں بدنام کیا جاتا ہے تو اس کے نہ صرف غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں بلکہ یہ حقیقی زندگی میں مسلمانوں کے خلاف تعصب اور امتیازی سلوک کا بھی باعث بنتا ہے۔ فنکاروں، فلم سازوں اور ناظرین کو اس مسئلے کی حساسیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ فلمیں مثبت تبدیلیاں لائیں نہ کہ تفریق اور نفرت پھیلائیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم میڈیا میں درست اور حقیقت پر مبنی نمائندگی کی اہمیت کو تسلیم کریں اور ایسے مواد کو فروغ دیں جو تمام برادریوں کا احترام کرے۔