مضامین

اسلاموفوبک فلمیں: سچائی کو چھپانے کا نیا ہتھیار!

از قلم:  محمد فرقان
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
8495087865, mdfurqan7865@gmail.com

ہندوستان میں حالیہ برسوں میں فلم اور میڈیا کے ذریعہ جو بیانیہ قائم کیا جا رہا ہے، وہ تخلیقی آزادی یا آزادی اظہار رائے کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک منظم سیاسی، سماجی اور نظریاتی پروپیگنڈا ہے، جس کا مقصد صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانا نہیں بلکہ اس ملک کے اندر جاری اصلی مسائل، ظلم و ناانصافی اور سماجی و آئینی جرائم سے عوام کی توجہ ہٹانا بھی ہے۔ ”دی کشمیر فائلز“، ”دی کیرالہ اسٹوری“ اور تازہ ترین ”ادے پور فائلز“جیسی فلمیں اسلاموفوبیا کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ایک بڑی اور خطرناک چال کا حصہ ہیں، جس کے ذریعے اصل حقائق کو چھپایا جا رہا ہے، تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے، اور اکثریتی عوام کے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف زہر گھولا جا رہا ہے۔ ان فلموں میں مسلمانوں کو دہشت گرد، غدار، سماج دشمن اور ملک مخالف قوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہی مسلمان اس ملک کی ترقی، تاریخ، تہذیب، آزادی اور ثقافت کا ایک ناقابلِ انکار حصہ رہے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے آج میڈیا، فلمی دنیا اور حکومت کی ملی بھگت سے انہیں ایک فرضی بیانیے کے تحت کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔ اگر واقعی ملک میں انصاف، سچائی اور انسانیت پر مبنی فلمیں بنانی ہوں تو انہیں ان مظلوم مسلمانوں پر بنانا چاہیے جنہیں نظامِ

عدل نے بغیر کسی جرم کے دہائیوں تک قید و بند میں رکھا۔
”ادے پور فائلز“جیسی فلمیں کنہیا لال کے قتل کے آڑ میں پورے اسلام کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کرتی ہیں، لیکن کیا آج تک کسی فلم ساز کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ 2002 ء کے گجرات فسادات پر”گجرات فائلز“بنائے؟ وہ نسل کشی جس میں ہزاروں مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا، حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کیے گئے، مسجدیں شہید کی گئیں، اور پوری بستیوں کو صفحہئ ہستی سے مٹا دیا گیا، اس پر کوئی فلم کیوں نہیں بنی؟ کیوں نہیں دکھایا گیا کہ کیسے بی جے پی کے نظامِ حکومت نے ان فسادات میں اپنی ناکامی یا ملی بھگت کو چھپانے کی کوشش کی؟ کیا یہ سچائی دکھانے سے سماج کو فائدہ نہیں ہوگا؟ لیکن چونکہ ان سچائیوں سے اکثریت کی خاموش حمایت اور حکومت کی ناکامی بے نقاب ہوتی ہے، اس لیے یہ فلمیں کبھی وجود میں نہیں آتیں۔اسی طرح 1989 ء کے بھاگلپور فسادات، جس میں مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام ہوا، سیکڑوں عورتوں کی عصمتیں لوٹی گئیں، اور ہزاروں افراد بے گھر ہوئے، آج تک فلمی پردے پر نظر نہیں آئے۔ جبکہ یہی میڈیا اور فلمی دنیا ہر اس واقعہ پر فوراً متحرک ہو جاتی ہے جہاں کوئی فرد واحد کسی قابلِ مذمت حرکت کا ارتکاب کرے، اگر وہ مسلمان ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ سارا نظام انصاف، میڈیا اور فلمی دنیا کا ایک گٹھ جوڑ ہے جو ملک کے عوام کو اصل مسائل سے غافل رکھ کر ایک فرضی دشمن تراشتا ہے تاکہ ان کا غصہ، ان کی مایوسی اور ان کی بے بسی مسلمانوں پر نکالی جا سکے۔
ملک کی عدلیہ نے اکشردھام حملے کے الزام میں گرفتار مفتی عبد القیوم منصوری کو گیارہ سال سلاخوں کے پیچھے رکھنے کے بعد باعزت بری کیا، اور کہا کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا۔ لیکن ان کی تباہ شدہ زندگی پر کوئی فلم کیوں نہیں بنی؟ ان کے خاندان کی بربادی، ان کے جذباتی اور نفسیاتی صدمات پر کوئی کیمرہ کیوں نہیں گیا؟ کیا ایک بے گناہ مسلمان کی زندگی کی قیمت اس ملک میں اتنی کم ہو چکی ہے کہ اس کی کہانی کو سننے کے قابل بھی نہیں سمجھا جاتا؟ درحقیقت یہ خاموشی خود ایک جرم ہے، اور اس خاموشی کو چھپانے کے لیے ”کشمیر فائل“اور ”ادے پور فائلز“ جیسے شور پیدا کیے جاتے ہیں تاکہ اصل سچائی پس منظر میں دفن ہو جائے۔ ہزاروں مسلمان نوجوان آج بھی جیلوں میں سڑ رہے ہیں، جن پر دہشت گردی کے فرضی الزامات لگائے گئے۔ سالوں بعد جب عدالتیں انہیں باعزت بری کرتی ہیں تو نہ کوئی معاوضہ، نہ کوئی معافی، نہ ہی کوئی پچھتاوا نظر آتا ہے۔ ان کی تباہ شدہ جوانی، ان کی ماؤں کی سسکیاں، ان کے بچوں کی بھوکی آنکھیں، ان سب پر کوئی فلم نہیں بنتی، کیونکہ یہ سچ فلموں کے اسکرپٹ میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ یہاں فلم وہی بنتی ہے جو مسلمانوں کو ولن دکھائے، وہ نہیں جو سسٹم کی بدعنوانی، نفرت کی سیاست اور فرقہ پرست ذہنیت کو بے نقاب کرے۔بابری مسجد کی شہادت ایک تاریخی سانحہ ہے۔ دن دہاڑے ایک تاریخی عبادت گاہ کو گرا دیا گیا، اور بعد میں عدالت نے یہ مانا کہ وہ توڑنا غیر قانونی تھا اور مسجد کسی مندر پر نہیں بنا تھا، لیکن پھر بھی زمین مندر کو دے دی گئی۔ کیا یہ انصاف ہے؟ کیا اس پر فلم بنانا ملک کی عوام کو سچ سے روشناس کرانا نہیں ہے؟ کیوں نہیں دکھایا جاتا کہ اس ملک میں کس طرح اکثریتی دباؤ اور مذہبی سیاست کے تحت عدالتی فیصلے بھی متاثر ہوتے ہیں؟ اگر ”ادے پور فائلز“ ایک شخص کے قتل کے آڑ میں پورے مسلم سماج کو بدنام کرنے کیلئے بن سکتی ہے تو بابری مسجد کی شہادت پر کیوں نہیں؟ اس لیے کہ وہاں مظلوم مسلمان تھے، اور ظالم کی پشت پناہی اقتدار کر رہا تھا۔
مسلمان خواتین کی زندگی اس ملک میں دوہری تلوار کے نیچے ہے۔ ایک طرف ان کے مذہبی تشخص کو نشانہ بنایا جاتا ہے، پردے پر طنز کیے جاتے ہیں، شرعی نظام کو پسماندگی کہا جاتا ہے، اور دوسری طرف خود سماج میں انہیں بے پردگی، اسلام مخالف قوانین، اور ہراسانی کا سامنا ہے۔ ”سلی ڈیلز“ (Sulli Deals)اور ”بلّی  بائی“(ؓBulli Bai) جیسے ایپس پر ان کی نیلامی کی جاتی ہے، سوشل میڈیا پر ان کے حجاب کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اور عدلیہ خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ کیا ان مسلم خواتین کی عزت و عصمت اور ان کے خلاف ہونے والی بھگوا سازشوں پر آج تک کوئی فلم بنی؟ نہیں، کیونکہ یہاں مقصد صرف مسلمانوں کو نیچا دکھانا ہے۔ شریعت پر حملے ہو رہے ہیں، اسلامی تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، مدارس پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کیا جا رہا ہے، دارالعلوم دیوبند جس کے علماء کی بدولت ملک کو آزادی ملی اس ادارے کو دہشت گردی کا اڈا بتایا جارہا ہے، اور وقف املاک کو ہتھیانے کے لیے قانون بدلے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ سب موضوعات کبھی کسی فلمی ڈائریکٹر کا موضوع نہیں بنتے۔ کیونکہ ان پر روشنی ڈالنا موجودہ حکومت کی پالیسیوں کو بے نقاب کرنا ہوگا، اور ایسا کوئی فلم ساز یا پروڈیوسر کرنے کو تیار نہیں کیونکہ ان کے
مالی مفادات، حکومتی حمایت، اور پروپیگنڈا مشینری کا چکر اس کی اجازت نہیں دیتا۔
اس تمام صورتحال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ نہ صرف یہ فلمیں مسلمانوں کے خلاف نفرت بڑھاتی ہیں، بلکہ اصل سماجی، اقتصادی اور آئینی
مسائل سے عوام کی توجہ ہٹاتی ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، تعلیمی بحران، کسانوں کی بدحالی، عدلیہ کی کمزوری، اور میڈیا کی جانبداری جیسے حقیقی مسائل کو پس منظر میں دھکیل کر ایک فرضی دشمن کی دیوار کھڑی کر دی گئی ہے تاکہ ہر سوال کو فرقہ واریت میں دفن کیا جا سکے۔یہ فلمیں دراصل حکومتی ناکامیوں کی پردہ پوشی کے لیے ایک شطرنج کا مہرہ ہیں، اور ان کا ہدف صرف مسلمان نہیں بلکہ وہ ہر شخص ہے جو انصاف، عقل، اور آئینی قدروں پر یقین رکھتا ہے۔ جو آج مسلمانوں کے خلاف زہر کو نظرانداز کرے گا، کل اسے خود اس زہر کا نشانہ بننا پڑے گا۔ نفرت کے اس کاروبار کا نقصان صرف اقلیتوں کو نہیں بلکہ پورے ملک کو ہوگا۔ ایک ایسا سماج جو انصاف اور سچائی پر نہیں بلکہ جھوٹ اور تعصب پر قائم ہو، وہ زیادہ دن قائم نہیں رہ سکتا۔
یہ وقت ہے کہ ہم ان جھوٹے، گمراہ کن اور خطرناک بیانیوں کے خلاف ایک سچ پر مبنی، باوقار اور انسانیت نواز بیانیہ کھڑا کریں۔ ہمیں اب خاموشی، خوف یا وقتی مصلحت سے بالاتر ہو کر اس پروپیگنڈا کے طوفان کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونا ہوگا۔ ہمیں اپنے قلم کو ہتھیار بنانا ہوگا، کیمرے کو سچ کا آئینہ بنانا ہوگا، آواز کو مظلوموں کی فریاد بنانا ہوگا، اور شعور کو بیداری کا پرچم بنانا ہوگا۔ ہمیں اس سرزمین پر ہونے والی نسل کشیوں، مذہبی ناانصافیوں، عدالتی زیادتیوں اور سماجی تفریق کی کہانیاں دنیا کے سامنے لانی ہوں گی۔ یہ وقت ہے کہ ہم صرف ”ادے پور فائلز“، ”کشمیر فائلز“ اور ”کیرالا اسٹوری“ جیسے جھوٹے فلم کے بیانیوں کا جواب نہیں بلکہ اس ملک کی حقیقی تاریخ، اصل المیوں اور مظلوم انسانوں کی پکار کو اجاگر کرنا ہوگا اور سچائی پر مبنی واقعات اور ظلم کی داستان کو دکھنا ہوگا۔ ہمیں دنیا کو یہ دکھانا ہوگا کہ ہندوستان صرف نفرت کی زمین نہیں، بلکہ سچائی، انصاف اور ضمیر والوں کی سرزمین بھی ہے۔ ہمیں یہ احساس دلانا ہوگا کہ اگر ظلم کے ساتھ طاقت ہے تو مظلوم کے ساتھ حق ہے، اگر پروپیگنڈا کے ساتھ پیسہ ہے تو سچ کے ساتھ خدا ہے۔
یہ جنگ صرف مسلمانوں کی نہیں ہے، بلکہ ہر اُس انسان کی ہے جو انصاف، عزتِ انسانی، برابری اور آئینی اقدار پر یقین رکھتا ہے۔ اگر ہم سب نے مل کر اب بھی خاموشی اختیار کی، تو آنے والی نسلیں صرف ہماری بے بسی کا نوحہ پڑھیں گی، ہمیں تاریخ کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کریں گی اور سوال کریں گی کہ جب سچ پامال ہو رہا تھا، انصاف روندھا جا رہا تھا، اقلیتوں کو شیطان بنا کر پیش کیا جا رہا تھا،آئین اور قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی تھیں؛ تب تم کہاں تھے؟ آج وقت ہے کہ ہم تاریخ کا صحیح رُخ متعین کریں۔ ایک ایسا رُخ جو سچ، عدل، امن، انسانیت، اور باہمی احترام پر قائم ہو، نہ کہ جھوٹ، نفرت، سیاسی مفاد اور اکثریتی تسلط پر۔ یہ تاریخ کا فیصلہ کن لمحہ ہے اور فیصلہ ہمیں کرنا ہے، آج، ابھی اور اسی وقت!
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہند کے مسلمانو!
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
(مضمون نگار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر ہیں)
Mohammed Furqan

+918495087865
todayonelive@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!