اسلامی

”یوم صحابہ ؓ“کا پیغام ملت اسلامیہ کے نام!

از قلم:  محمد فرقان
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
8495087865, mdfurqan7865@gmail.com

امت مسلمہ کی تاریخ کا ہر ورق ان عظیم نفوسِ قدسیہ کی قربانیوں سے روشن ہے، جنہیں دنیا ”صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین“ کے نام سے جانتی ہے۔ یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی معیت میں دینِ اسلام کی آبیاری کی، اس کے لیے ہجرتیں کیں، صعوبتیں اٹھائیں، مال و جان قربان کیے، اور تاریخِ انسانی میں بے مثال وفاداری کا مظاہرہ کیا۔ وہ نہ صرف نبی مکرم ﷺ کے ہم نشین تھے بلکہ وہ اولین مخاطب اور عامل تھے اُس وحی الٰہی کے جو قیامت تک انسانیت کی ہدایت کا ذریعہ ہے۔ لیکن افسوس! آج جب امت مسلمہ کو اپنے ماضی سے رشتہ جوڑنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، کچھ فتنہ پرور عناصر اسی ماضی کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی ناپاک کوششوں میں مصروف ہیں۔ صحابہ کرامؓ کی عظمت و توقیر، جن پر قرآن گواہ ہے اور سنتِ نبوی شاہد، آج اُن کے کردار پر زبان درازی، شبہات اور طعن و تشنیع کے تیر برسائے جا رہے ہیں۔ کبھی اجتہادی اختلافات کو بنیاد بنا کر فتنے اٹھائے جاتے ہیں، تو کبھی سوشل میڈیا کو ہتھیار بنا کر نئی نسل کے اذہان کو گمراہ کرنے کی سازشیں کی جاتی ہیں۔

ایسے پرفتن ماحول میں ”یومِ صحابہؓ“ کا انعقاد صرف ایک دینی تقویمی عمل نہیں بلکہ بیداری، شعور، غیرتِ ایمانی، اور اتحادِ ملت کی ایک عملی تحریک تھی۔ اس دن کا پیغام، دراصل ایک عہد کی تجدید تھی: کہ ہم اپنے اسلاف، اپنے محسنین، اپنے معلمینِ اولین کے دفاع میں ہر میدان میں حاضر ہیں۔ اس دن نے ہمیں یاد دلایا کہ جن صحابہؓ کے ذریعے ہمیں قرآن ملا، حدیث ملی، دین کی حقیقت ملی، آج اگر اُن پر انگلی اٹھے تو گویا ہم پر دین کی بنیادیں لرزنے لگتی ہیں۔”یومِ صحابہؓ“ ہمیں بتا گیا کہ صحابہ کرامؓ معیارِ حق ہیں۔ ان کے فیصلے، ان کا فہم، ان کی سیرت اور ان کی قربانیاں نہ صرف ماضی کی شان ہیں بلکہ آج کے فتنوں کا توڑ اور آنے والے کل کے لیے ہدایت کی روشنی ہیں۔ ان کی شخصیتیں ہمیں یہ سبق دے گئی کہ دین کے لیے جینا کیا ہوتا ہے، وفا کیسے نبھائی جاتی ہے، اور حق کی خاطر قربانی کیسے دی جاتی ہے۔
مرکز تحفظ اسلام ہند کی تحریک پر اور اکابر علماء کرناٹک کی اپیل پر ریاست کرناٹک میں 18/جولائی 2025ء بروز جمعہ کو منایا گیا ”یومِ صحابہؓ“ صرف ایک ریاستی مہم نہ تھی، بلکہ ایک امت گیر پیغام تھا کہ جب صحابہؓ کی عزت پر حملہ ہو، تو کوئی کلمہ گو خاموش نہ رہے۔ ریاست بھر کی ہزاروں علماء، ائمہ و خطباء اس پیغام میں شریک ہوئے، اور اپنی آہنی مساجد کے منبر و محراب سے اصحابِ رسول ﷺ کے عدل و تقویٰ، زہد و اخلاص، قربانی و فداکاری، علم و بصیرت اور غیر متزلزل وفاداری پر خطبات دیے۔ اس تحریک نے نہ صرف مساجد کے ماحول کو روشن کیا بلکہ نوجوان نسل کے دلوں میں محبتِ صحابہؓ کی شمع بھی فروزاں کر دی۔آج کا نوجوان سوشل میڈیا کے دباؤ، مغرب زدہ ذہنیت، اور خود ساختہ مفکرین کی گمراہ کن باتوں کے بیچ جھول رہا ہے۔ اس کی رہنمائی صرف وہی کر سکتے ہیں جو اسے دین کی اصل بنیادوں سے جوڑیں۔ اور دین کی اصل بنیادیں وہی صحابہؓ ہیں جنہوں نے سچائی کو نبی ﷺ سے لیا، دل و جان سے قبول کیا، اور پوری امت تک پہنچایا۔ اس لیے ”یومِ صحابہؓ“ کے ذریعے جو شعور دیا گیا وہ وقتی نہیں، بلکہ دائمی پیغام ہے۔ یہ امت کے لیے ایک بیداری کا آغاز ہے کہ اب خاموشی کی گنجائش نہیں۔
”یومِ صحابہؓ“ نے ایک فکری و علمی محاذ کی بھی نمائندگی کی۔ اس دن اہلِ قلم، خطباء، محدثین، مفسرین، اور ہر ذی شعور مسلمان نے یہ عہد کیا کہ وہ دین کے ان بنیادی محافظوں کے بارے میں کسی بھی قسم کی گستاخی، توہین یا طعنہ زنی کو برداشت نہیں کریں گے۔ اہلِ علم نے یہ اعلان کیا کہ صحابہ کرامؓ کے عدل، تقویٰ، علم، زہد، اور بصیرت پر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ اُسے امت کی فکری بنیاد مانتے ہیں۔ کیونکہ اگر صحابہؓ پر اعتماد اٹھ جائے تو قرآن کی حفاظت، حدیث کی صداقت، اور دین کی تمام روایتیں مشکوک ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا ان کی عظمت پر ایمان رکھنا دراصل دین پر ایمان رکھنے کے مترادف ہے۔
”یومِ صحابہؓ“ ہمیں یہ بھی سکھا گیا کہ وحدتِ امت کیسے قائم کی جائے۔ صحابہ کرامؓ کی صفات میں سب سے بڑی صفت یہ تھی کہ وہ ”وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّہِ جَمِیعًا….“ کے عملی نمونہ تھے۔ وہ قوم، نسل، زبان یا قبیلہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف دین کی بنیاد پر جُڑے تھے۔ اسی بنیاد پر اسلام نے دنیا میں ایک نئی تہذیب، نئی سیاست، نئی معاشرت اور نیا نظام قائم کیا۔ آج جب امت لسانیت، قومیت، فرقہ واریت، اور خود ساختہ تصورات میں بٹ چکی ہے، تو صحابہؓ کی سیرت ہمیں وحدت کی راہ دکھاتی ہے۔کرناٹک میں منعقد ہونے والا ”یومِ صحابہؓ“ اسی وحدت، ایمان، غیرت اور شعور کا عملی مظاہرہ تھا۔ ریاستی سطح پر جو آواز بلند ہوئی، وہ گونجی تو بیرون ریاست کے کئی علاقوں میں بھی علماء نے اسی جذبے کو اپنایا اور یومِ صحابہؓ منایا۔ یہ بات واضح ہو گئی کہ جب دین کے بنیادی ستونوں پر حملہ ہوتا ہے تو امت بیدار ہوتی ہے، متحد ہوتی ہے، اور اپنے دفاع کے لیے میدان میں آ جاتی ہے۔ امت کا یہ متحدہ موقف دراصل اس بات کا مظہر ہے کہ صحابہ کرامؓ کے خلاف اٹھنے والی کوئی بھی آواز امت کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔
اس دن کا پیغام یہ بھی ہے کہ دین کے دشمن صرف تلوار سے حملہ نہیں کرتے، وہ ذہنوں کو مسموم کرتے ہیں، سوالات کی شکل میں شکوک پیدا کرتے ہیں، عقیدے کو بے وزن بناتے ہیں، اور نوجوانوں کو تاریخ سے کاٹنے کی چالاکی کرتے ہیں۔ لیکن جب امت کا ہر فرد، ہر خطیب، ہر امام، ہر معلم اور ہر قلمکار میدان میں اتر آتا ہے تو پھر یہ فتنے خود بخود دم توڑ دیتے ہیں۔”یومِ صحابہؓ“ نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ صحابہ کرامؓ صرف تاریخی شخصیات نہیں بلکہ ہمارے ایمان کا حصہ ہیں۔ ان کی محبت ایمان کی علامت، اور ان کی توہین نفاق کی نشانی ہے۔ اس لیے یہ دن صرف ایک تقریری دن نہیں، بلکہ ایک عملی عزم کا دن ہے کہ ہم صحابہؓ کے افکار، ان کی سیرت، ان کے اسوہ، ان کے عدل و فہم کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گے۔ ہم نہ صرف ان کی عزت کی حفاظت کریں گے بلکہ ان کے راستے کو اپنی عملی زندگی میں اپنائیں گے۔
اس دن ہمیں یہ بھی سمجھنے کا موقع ملا کہ صحابہؓ کے متعلق فتنوں کی جڑیں کہاں ہیں، اور ان کا توڑ کیسے ممکن ہے۔ تعلیم، تربیت، تقریر، تحریر، اور عمل؛ یہ وہ پانچ میدان ہیں جن میں کام کر کے ہم آنے والی نسل کو فتنوں سے بچا سکتے ہیں۔ ”یومِ صحابہؓ“ نے ہمیں یہ شعور دیا کہ فتنوں کا مقابلہ صرف جذبات سے نہیں، علم، حکمت، اور تدبر سے بھی کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنی مساجد کو تعلیمی مراکز بنانا ہو گا، اپنے مدارس کو فکری قلعے بنانا ہو گا، اور اپنے نوجوانوں کو صحابہ کرامؓ کی سیرت کا عاشق بنانا ہو گا۔
”یومِ صحابہؓ“ دراصل ایک امت گیر دعوت ہے کہ آئیے، اپنے دلوں کو صحابہؓ کی محبت سے روشن کریں، اپنی زبانوں کو ان کے تذکرہ سے پاک کریں، اپنی محفلوں کو ان کی سیرت سے مہکائیں، اور اپنی نسلوں کو یہ سبق دیں کہ دین ہم تک جن کے ذریعے پہنچا، وہ ہمارے لیے معیارِ حق ہیں، اور ان کی گستاخی دراصل دین کے خلاف جنگ ہے۔یہ دن ہمیں یاد دلا گیا کہ دشمنانِ اسلام کی چالیں وقتی ہوتی ہیں، مگر امت کی غیرت جاگ جائے تو تاریخ بدل جاتی ہے۔ پس ”یومِ صحابہؓ“ نہ صرف ایک دن تھا بلکہ ایک تحریک تھا، ایک عزم تھا، ایک دعوت تھا، ایک روشنی تھا؛ جو ہمیں بتا گیا کہ جب ہم اصحابِ رسول ﷺ کے دامن کو تھام لیتے ہیں، تو دین کے قلعے مضبوط ہو جاتے ہیں، اور باطل کی تمام سازشیں خاک میں مل جاتی ہیں۔
اسی عزم، غیرت، اور اجتماعیت کی زندہ تصویر بن کر ”یومِ صحابہؓ“ سامنے آیا۔ ریاست بھر میں جس جوش، اتحاد، اور دینی شعور کا اظہار ہوا، اس نے یہ واضح پیغام دیا کہ صحابہ کرامؓ کے خلاف اٹھنے والا ہر فتنہ امت کے سینے سے ٹکرا کر بکھر جائے گا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس دن کے پیغام کو سال بھر کی مسلسل تحریک میں تبدیل کریں، اور ہر شعبہ حیات میں صحابہؓ کی سیرت اور افکار کو بنیاد بنائیں، تاکہ آنے والی نسلیں گمراہی کی تاریکیوں کے بجائے صحابہؓ کی روشنی میں اپنے دین کو پہچان سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرامؓ کی محبت، وفاداری، اور دفاع کے راستے پر استقامت نصیب فرمائے، اور امتِ مسلمہ کو بیدار، متحد اور غیرت مند بنائے۔ آمین یا رب العالمین۔
(مضمون نگار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر ہیں)
Mohammed Furqan

+918495087865
todayonelive@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!