مہاراشٹرا

19 برس بعد بے گناہ قرار پائے انجینئر آصف خان کو انصاف

آئین کی جیت، صبر کا صلہ اور عدل کی فتح: ، سماجی مساوات ،اور ازالہ دیا جائے
ایکتا سنگٹھنا کا مطالبہ: صرف رہائی نہیں، مکمل معاوضہ، باز آبادکاری اور نظامی احتساب بھی ہو.
جلگاؤں (عقیل خان بیاولی)
تاریخ کے صفحات جب کبھی بے زبان انصاف کی داستانیں لکھیں گے، تو آصف بشیر خان کا نام ایک روشن مگر زخم خوردہ عنوان بن کر ابھرے گا۔ یہ کہانی ہے جلگاؤں کے شیرسولی ناکہ علاقہ سے تعلق رکھنے والے ایک تعلیم یافتہ، بے گناہ سول انجینئر کی، جس کی زندگی کے انیس سال جھوٹے الزامات، خاموش دیواروں، ٹوٹے خوابوں اور سماج کی بےحسی کی نذر ہو گئے۔2006 میں ہونے والے بم دھماکوں کے جھوٹے الزام میں آصف کو دہشت گرد قرار دے کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ثبوت نہ تھا، جرم نہ تھا، صرف ایک نام، ایک مذہب اور ایک بے حس نظام تھا , جس نے نہ صرف آصف کو قید کیا بلکہ اس کے ماں باپ کے بڑھاپے کی لاٹھی چھین لی، اس کے بچوں سے باپ کی شفقت اور اس کی بیوی سے وفا کے تقاضوں سے بڑھ کر آزمائش کا صبر مانگ لیا۔
انیس برس…نہ کوئی گناہ ثابت ہوا نہ کوئی عدالت مطمئن ہوئی
اور بالآخر ممبئی ہائی کورٹ نے انہیں مکمل بے قصور قرار دے کر باعزت بری کر دیا۔مگر کیا یہ بریت ہی کافی ہے؟ کیا اتنے سالوں کا چھینا ہوا وقت، تباہ شدہ خواب، اور معاشرتی بائیکاٹ کی تذلیل محض ایک فیصلے سے مٹ سکتی ہے؟
نہیں!اسی سوال کو لے کر ایکتا تنظیم نے یہ معاملہ ایک قانونی نہیں، روحانی اور اخلاقی جدوجہد کی شکل دی ہے۔
ایکتا سنگٹھنا کے مطالبات:1. آصف بشیر خان کو کم از کم 1 کروڑ روپے کا مالی معاوضہ دیا جائے 2. انہیں ذہنی، سماجی اور اقتصادی بحالی کے لیے حکومتی مدد فراہم کی جائے ٣. اس معاملے کی آزاد عدالتی تفتیش کی جائے، اور جن افسران و ایجنسیوں نے ناانصافی کی، انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے4. عدالتی و تفتیشی نظام میں اصلاحات، شفافیت اور جوابدہی کا مؤثر نظام قائم کیا جاۓ یہ صرف ایک نوجوان کی بازیافت نہیں، بلکہ ہندوستانی آئین کی روح، انسانی وقار اور عدالتی وقار کی بازیافت ہے۔یہ ان ماں باپ کے صبر کی فتح ہے جنہوں نے ہر تہمت کو خاموشی سے سہا،
یہ اس بیوی کی استقامت کا صلہ ہے جس نے اپنی جوانی کو کربلا کا خیمہ بنا لیا،اور یہ ان معصوم بچوں کا حق ہے جنہوں نے باپ کے لمس کو خوابوں میں محسوس کیا۔ایکتا تنظیم کے ہم آہنگ کار فاروق شیخ نے میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیموں، دانشوروں، اور عوام الناس سے اپیل کی ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف ایک متحدہ انسانی آواز بنیں۔ضلع کلیکٹر آیوش پرساد کو پیش کیا گیا مطالباتی میمورنڈم ایکتا تنظیم کے وفد نے ضلع افسر آیوش پرساد سے ملاقات کر کے مطالبات پر مبنی میمورنڈم ان کے ذریعے وزیر اعلیٰ مہاراشٹر، اقلیتی امور کے وزیر، قومی و ریاستی انسانی حقوق کمیشن اور قومی اقلیتی کمیشن تک پہنچائی۔اس موقع پر مفتی خالد، حافظ رحیم پٹیل، انیس شاہ، متین پٹیل، مولانا شفیق سمیت دیگر ممتاز سماجی شخصیات موجود رہے یہ صرف ایک عدالتی فیصلہ نہیں، بلکہ آئین کی سچائی، قوم کی روح، اور صبر کی آنکھوں سے نکلے آنسوؤں کی تسکین ہے۔ اب وقت ہے کہ صرف رہائی نہیں، مکمل ازالہ، سرکاری معافی اور مجرموں کی جوابدہی بھی کی جائے،تاکہ انصاف صرف کاغذی نہ ہو، بلکہ انسانی ہو۔

todayonelive@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!