مضامین
مسلمانوں کا عہدِ امتحان ظلم کا تہذیبی زاویہ یا تہذیبی سازش؟


فون 09422724040
جب ظلم ایک واقعہ نہیں بلکہ سلسلہ بن جائے، اور ناانصافی ایک استثنا نہیں بلکہ معمول کا حصّہ بن جائے، تو سوال صرف مظلوم کی چیخ کا نہیں رہتا، بلکہ پورے سماج کی خاموشی کا بن جاتا ہے۔ تاریخ کے صفحات میں وہ لمحے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں جب کسی قوم کو اس کے نام، لباس، یا عقیدے کی بنیاد پر کٹہرے میں کھڑا کیا گیا، اور باقی دنیا نے یا تو اس منظر کو "معمول” سمجھا، یا "خوف” سے نظریں چرائیں۔ ہندوستان کے موجودہ منظرنامے میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک صرف سیاسی پالیسی یا میڈیا کی سنسنی نہیں، بلکہ اس تہذیبی مکالمے کا بدترین رخ ہے، جہاں "تکثیریت” کے دعوے، "رواداری” کے اسباق اور "جمہوریت” کے نعرے محض کھوکھلے الفاظ محسوس ہونے لگتے ہیں۔
یہ مضمون ان ہی سوالات کی ایک گونج ہے۔ وہ سوالات جو عدالت کی سیلن زدہ دیواروں میں دفن ہو گئے، وہ چیخیں جو میڈیا کے شور میں گم ہو گئیں، اور وہ سچ جو ہمارے ضمیر کی بند الماریوں میں قید ہے۔ یہ تحریر محض کسی مخصوص واقعے کی روداد نہیں، بلکہ ایک ایسی صدا ہے جو ہر حساس دل، ہر باشعور ذہن، اور ہر بیدار ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے لکھی گئی ہے۔ ٹرین بم دھماکے کیس سے لے کر تبلیغی جماعت کے خلاف منظم پروپیگنڈے تک، ظلم و ستم کی جو داستان تحریر کی جا رہی ہے، وہ محض عدالتی نظام کی ناکامی یا میڈیا کی بے راہ روی کا نتیجہ نہیں، بلکہ اس کے پس پشت ایک گہری فکری اور تہذیبی چال کار فرما ہے ایسی چال جس کا نشانہ ایک مخصوص قوم، ایک خاص ملت، یعنی مسلمان بنائے جا رہے ہیں۔
اسلاموفوبیا کی تہذیبی تشکیل: تہذیبی تصادم یا سیاسی انتقام؟
ملک کی عدالتوں میں برسوں تک چلنے والے وہ مقدمات، جن میں بے گناہوں کو دہشت گرد قرار دے کر سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا، صرف عدالتی نظام کی بے حسی کا نوحہ نہیں ہیں۔ اور نہ ہی میڈیا کی زرد صحافت کا شور صرف صحافتی لغزش ہے۔ یہ سب اس بڑی بساط کا حصّہ ہے جس پر تہذیبوں کی جنگ لڑی جا رہی ہے ایک ایسی جنگ جس کا ہدف کوئی فردِ واحد نہیں، بلکہ ایک پوری ملت، ایک مکمل عقیدہ اور ایک زندہ تہذیب ہے۔
جب 2006ء کے ٹرین بم دھماکوں کے بعد ملک کے مختلف شہروں سے مسلمان نوجوانوں کو اٹھایا گیا، ان پر مقدمات قائم کیے گئے، اور وہ سالہاسال قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے رہے تو یہ محض نظام انصاف کی تاخیر نہ تھی، بلکہ اس سے بڑھ کر یہ اُس ذہن کی کارفرمائی تھی جو "مسلمان” کو جرم کا مترادف بنا کر پیش کرنا چاہتا ہے۔ یہ اس معاشرتی نفسیات کا عکس تھا جو ایک مخصوص مذہبی شناخت کو ملک دشمنی، دہشت گردی اور شدّت پسندی کے ساتھ نتھی کرنا چاہتی ہے۔
پھر جب تبلیغی جماعت پر کووڈ-19 کے آغاز میں پورے ملک کی بیماری پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا، تو یہ محض ایک فاش میڈیا ٹرائل نہ تھا، بلکہ ایک گہری تہذیبی چال کا حصہ تھا۔ میڈیا کے کیمروں نے خانقاہوں کی خامشی کو شور میں بدلا، اور ذکر و اذکار کی محفلوں کو خوف کے اڈے بنا کر پیش کیا۔ وہ جو ایک صدی سے زیادہ عرصے سے پوری دنیا میں امن، اخلاق اور دعوت کا پیغام لیے پھرتی تھی، اچانک وبا کی وجہ بن گئی۔ یہ الزام نہیں تھا، یہ علامت تھی اس بات کی علامت کہ ایک پوری تہذیب کو داغدار کرنے کی شعوری کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ سب واقعات بکھرے ہوئے نہیں ہیں، بلکہ ایک متصل کہانی کا حصّہ ہیں، جیسے کسی قدیم داستان میں ہر باب پچھلے باب کا تسلسل ہو۔ ان کی جڑیں ان نظریاتی فکریات میں پیوست ہیں جو "تکثیری معاشرے” کو ایک اکثریتی عقیدے کے تابع کرنے کی آرزو رکھتے ہیں۔ یہاں مسلمانوں کو بار بار یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ "غیر”، "دوسرے”، اور "کمتر” ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج کا ہندوستان جہاں کبھی قطب مینار، تاج محل اور درگاہ اجمیر کی مشترکہ فضائیں گونجا کرتی تھیں اب تہذیبی برتری کی ایک ایسی لڑائی میں الجھ گیا ہے، جس میں ماضی کی عظمت کو جرم بنایا جا رہا ہے، اور حال کی شناخت کو خطرہ۔ مسلمان اب محض ایک فرد نہیں رہا، وہ ایک سوال بن چکا ہے ایک ایسا سوال جس کا جواب دینے کی ذمّہ داری خود مسلمانوں پر نہیں بلکہ اُن قوتوں پر ہے جو مسلسل اس کی شناخت، کردار اور نیت کو مشکوک بنانے پر تُلی ہوئی ہیں۔
یہ صرف جیلوں کی دیواروں کے درمیان سسکتے جوانوں کا معاملہ نہیں، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ایک تہذیب کی نرگسی آنکھوں کو چبھتی ہوئی وہ روشنی ہے جو لا الہٰ الا اللّٰہ کے کلمے سے پھوٹتی ہے۔ یہی وہ روشنی ہے جس سے خوفزدہ نظام، اسے بجھانے کے لیے پروپیگنڈے، ظلم، اور تحقیر کا سہارا لیتا ہے۔ ایسے میں اقبالؒ کا یہ شعر جیسے وقت کے سینے پر لکھی ہوئی تحریر بن گیا ہے: ؎
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہو گا
وقت آ گیا ہے کہ ہم اس تہذیبی و فکری حملے کو صرف سیاسی یا عدالتی زاویے سے نہ دیکھیں، بلکہ اسے ایک عظیم الشان نظریاتی جنگ سمجھ کر اس کا جواب دیں۔ اپنی تاریخ، اپنی علمی روایت، اپنے اخلاقی معیار، اور اپنے اجتماعی شعور کے اسلحے سے ہم نہ صرف اپنا دفاع کر سکتے ہیں بلکہ اس اندھیرے کو روشنی سے بدل سکتے ہیں۔
عدل کا جھکتا ترازو
آخر کب تک ہم اس سوال سے نظریں چراتے رہیں گے؟ آخر کب تک اس تلخ حقیقت کو "اتفاقی حادثہ” یا "تحقیقات کا حصّہ” کہہ کر ٹالا جاتا رہے گا؟ یہ سوال اب صرف ایک استثنائی واقعے کی کوکھ سے جنم لینے والا ردعمل نہیں، بلکہ ایک طویل، مسلسل، اور شعوری رویّے کا نچوڑ ہے۔ کیوں عدل و انصاف کا ترازو ہر بار مسلمانوں کے خلاف ہی جھکتا ہے؟ کیوں ہر سازش کا پہلا ملزم وہی ہوتا ہے جس کے ماتھے پر سجدے کا نشان ہوتا ہے، جس کا لباس ثقافت کی پہچان ہے، اور جس کا نام اذان کی صدا کی طرح پہچانا جاتا ہے؟ کیوں کسی کو مقدمہ چلائے بغیر محض نام یا لباس دیکھ کر دہشت گرد ٹھہرا دیا جاتا ہے، اور کیوں عدالت کے کٹہرے تک پہنچنے سے پہلے ہی میڈیا ٹرائل کے ذریعے اس کی ساری عزّت خاک میں ملا دی جاتی ہے؟
ہم نے دیکھا ہے ہزارہا آنکھوں نے، ہزارہا دلوں نے کہ ملک کے ریلوے اسٹیشنوں، بازاروں، درگاہوں اور گلیوں میں کوئی دھماکہ ہو تو خبر کی پہلی سطر ہی یہ ہوتی ہے: "تحقیقات کا رخ کسی اسلامی تنظیم کی طرف”۔ نہ کوئی ثبوت، نہ کوئی گواہ، نہ کوئی مقدمہ بس ایک نام، ایک شناخت، اور ایک شکوک سے لدی ہوئی شہ سرخی۔ اور جب برسوں بعد فیصلہ آتا ہے کہ "ملزم بے قصور تھا” تو وہ صرف عدالتی بیان ہوتا ہے، ایک بے جان تحریر۔ مگر جو بے قصور تھا، اُس کی زندگی تو پہلے ہی کسی سنسان سیل میں دفن ہو چکی ہوتی ہے، اس کا بچپن، اس کی جوانی، اس کا خاندان، اس کی ساکھ سب کچھ خاکستر ہو چکا ہوتا ہے۔
کیا ہمیں یاد نہیں کہ عبدالناصر مدنی، جو ایک ممتاز مذہبی اور سیاسی رہنما تھے، کیسے 9 برس کی قید کاٹنے کے بعد بے گناہ قرار پائے؟ یا بے شمار وہ نوجوان، جن پر "دہشت گردی” کا الزام چسپاں کر کے جیلوں میں ڈالا گیا، لیکن برسوں بعد بھی ان پر کوئی فردِ جرم ثابت نہ ہو سکی؟ اور تبلیغی جماعت کے ان سینکڑوں ارکان کا کیا جنہیں کووڈ کے دوران "وبا کے سوداگر” قرار دے کر بین الاقوامی میڈیا میں تضحیک کا نشانہ بنایا گیا، مگر عدالت نے آخرکار یہ فیصلہ دیا کہ "ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں”؟
لیکن عدالتی کلین چٹ عزّت واپس نہیں کرتی۔ وہ معصوم چہروں سے جڑی وہ راتیں واپس نہیں لا سکتی جو حراست کے اندھیرے کمروں میں گزر گئیں۔ میڈیا کے پروڈیوسر کو TRP مل جاتی ہے، پولیس کو کریڈٹ، حکومت کو ووٹ مگر مسلمان کو کیا ملتا ہے؟ فقط خاک، فقط رسوائی، فقط ایک اور لیبل: "مشکوک” یا "دہشت گرد”۔ یہ صرف سماجی تعصب کا معاملہ نہیں یہ ایک تہذیبی نفسیات ہے جو انصاف کو عقیدے کی کسوٹی پر پرکھتی ہے۔ کیا عدل کا مفہوم یہ ہے کہ صرف ایک مخصوص قوم کے خواب ہی بار بار ٹوٹیں؟ کیا انصاف کا مطلب یہ ہے کہ عدالت کا دروازہ ان کے لیے کبھی بہت دور ہو، اور میڈیا کا دروازہ ان کے خلاف ہمیشہ کھلا رہے؟
ہمیں ان سوالات کو دبانا نہیں، اٹھانا ہے اس لیے نہیں کہ ہم مظلوم ہیں، بلکہ اس لیے کہ ہم ایک زندہ تہذیب کے وارث ہیں، جس کے دین نے فرمایا: "کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف سے ہٹ جاؤ” (المائدہ:8)۔ ہم وہ لوگ ہیں جن کے رسولﷺ نے فرمایا: "اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹتا۔” یعنی عدل کی روح پر کوئی رعایت نہیں۔ اگر کسی ہندو، سکھ یا عیسائی ملزم کے خلاف بغیر ثبوت کے ایسی میڈیا مہم چلائی جاتی، تو انسانی حقوق کی تنظیمیں، سول سوسائٹی، اور دانشورانِ قوم آسمان سر پر اٹھا لیتے۔ مگر جب بات مسلمان کی ہو، تو اکثریت کی خاموشی پورے منظرنامے کو مزید خوفناک بنا دیتی ہے۔ یہ وہ خاموشی ہے جو تاریخ کے گلے میں ایک پھندے کی طرح پڑی ہے۔ اقبالؒ نے کہا تھا: ؎
فقیہِ شہر کی تحقیر کیا کہوں تجھ سے
گناہ، بے خبر و بے حجاب ہوتا ہے
آج یہی تحقیر مسلم شناخت کے ساتھ وابستہ کر دی گئی ہے۔ گناہ کا تعین شناخت سے ہو رہا ہے، نہ کہ ثبوت سے۔ اگر ہم نے آج ان سوالات کو زور سے نہیں پوچھا، تو کل یہ سوال ہماری اگلی نسلوں کی پیشانی پر داغ بن کر اُبھریں گے۔ یہ صرف مسلمانوں کا سوال نہیں، یہ ہندوستان کے ضمیر کا سوال ہے۔ اور جب ضمیر سوال کرے، تو جواب نہ دینا تاریخ کے لیے ناقابلِ معافی جرم بن جاتا ہے۔
وہ خواب جن پر زنجیریں ڈال دی گئیں
یہ کیسا انصاف ہے کہ جہاں حوالات کی دیواریں سچ سے اونچی، اور شہ سرخیاں ضمیر سے زیادہ طاقتور ہوگئی ہیں؟ جب ٹرین بم دھماکوں کے بعد پولیس کی بے رحم ہتھکڑیاں ایک کے بعد ایک مسلم نوجوان کو جکڑتی گئیں، تو صرف ان کے ہاتھ قید نہ ہوئے، ان کے خواب، ان کے خاندان، ان کا مستقبل بھی ساتھ قید ہوا۔ کیا کوئی عدالت یہ بتا سکتی ہے کہ ڈاکٹر فیصل کی ماں نے ان برسوں میں کتنی عیدیں سسک سسک کر گزاریں؟ کیا انصاف کے کسی ترازو میں تولے جا سکتے ہیں وہ لمحات جب ایک معصوم بچہ اپنے باپ کے بارے میں اسکول میں جھوٹ بولنے پر مجبور ہوتا ہے، صرف اس لیے کہ وہ "دہشت گرد کا بیٹا” کہلا کر جیتے جی مر نہ جائے؟ اور جب برسوں بعد عدالتیں یہ کہتی ہیں کہ "ان پر کوئی جرم ثابت نہیں ہو سکا” تو کیا وہ جملہ اس بچّے کے بچپن کو لوٹا سکتا ہے؟ اس ماں کے بوڑھے آنکھوں کو، جو ہر شب عدالت کے دروازے کو کعبہ سمجھ کر دعائیں مانگتی تھی؟
یہ محض چند افراد کی بات نہیں۔ یہ عدلیہ کی سنگین خاموشی اور میڈیا کی شوریدہ سر زبان کے درمیان پستی ہوئی ایک پوری ملت کی کہانی ہے ایسی ملت جو بار بار تاریخ میں جرم نہیں کرتی، بلکہ جرم کی زد میں آتی ہے۔ اور پھر آتا ہے تبلیغی جماعت کا واقعہ ایک ایسا طوفان جو کووڈ کی ہوا میں نہیں، بلکہ تہذیبی تعصب کی آگ میں بھڑکایا گیا۔ دہلی کی بستی نظام الدین میں چند زائرین کے اجتماع کو "وبا کا مرکز” قرار دے کر جو طعنہ زنی کی گئی، وہ محض صحافتی لغزش نہیں تھی، بلکہ صدیوں پر محیط ایک روحانی تحریک کی توہین تھی۔ وہ جماعت جس نے دنیا کے 150 سے زائد ممالک میں امن، سادگی، اور دعوت الیٰ اللّٰہ کا پیغام پہنچایا، اُسے صرف اس لیے نشانہ بنایا گیا کہ وہ عمامہ باندھتے ہیں، ٹخنوں سے اوپر کپڑے پہنتے ہیں، اور ہر نماز کے بعد حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ کیا کوئی میڈیا چینل کبھی کیرالہ یا اجمیر میں ہونے والے کیتھولک یا ہندو مذہبی اجتماعات کو وبا کے پھیلاؤ کا ذریعہ کہتا ہے؟ نہیں، کیوں کہ یہاں جرم کرنے سے زیادہ اہم ہوتا ہے کہ "کون” کر رہا ہے۔ اور جب کرنے والا مسلمان ہو، تو جرم خود بہ خود ثابت ہو جاتا ہے، ثبوت کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
یہ وہی تہذیبی نفرت ہے جس نے بابری مسجد کو شہید کیا، اجمیر بم دھماکوں میں مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرایا، اور مالیگاؤں کے بے قصور نوجوانوں کو جیل کی اندھی کوٹھریوں میں دھکیل دیا۔ اور آج بھی وہی نفرت کسی نہ کسی بہانے کبھی بیماری، کبھی بم، کبھی بیف، اور کبھی برقعہ مسلمان کو مجرم بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ یہ محض "ہدف ملامت” کا مسئلہ نہیں، بلکہ ایک تہذیبی مکافاتِ عمل کا آغاز ہے، جو ہمیں بتاتا ہے کہ اگر ہم نے ان مظلوموں کی سسکیوں کو تاریخ کے حاشیے پر چھوڑ دیا تو کل ہماری اپنی آواز بھی گم ہو جائے گی۔ اقبالؒ نے کہا تھا: ؎
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا
عمومِ دیدۂ آدمی ہے نقشِ حجاب
آج وہی بے حجابی ہے لیکن عدل کی، سچ کی، اور تہذیب کی۔ وہ نقاب اُٹھ چکا ہے، اور جو کچھ چھپا ہوا تھا، اب عیاں ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اُس بے نقاب سچ کو دیکھنے اور بیان کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟
ظلم کی حدیں اور ضمیر کی سرحدیں
یہ وہ مقام ہے جہاں سوال صرف عدالت کی بے حسی یا میڈیا کی جارحیت کا نہیں رہتا یہ سوال بن جاتا ہے اجتماعی ضمیر کا۔ ایک ایسا ضمیر جو دن کی روشنی میں تو جاگتا ہے، لیکن جب کسی خاص شناخت والے پر ظلم ہوتا ہے، تو خاموش ہو کر گہری نیند سونے لگتا ہے۔ یاد کیجیے، بابری مسجد کی شہادت صرف مسلمانوں کی شکست نہیں تھی، وہ ملک کے سیکولر وعدے کی پہلی بڑی چوٹ تھی۔ اُس روز جو اینٹیں مسجد کی دیواروں سے گِری تھیں، اُن کے نیچے صرف ایک عبادت گاہ نہیں، بلکہ انصاف کا تصور، کثرت میں وحدت کا خواب، اور دستور کے صفحات بھی دب گئے تھے۔ مگر ہم خاموش رہے، یہ سوچ کر کہ یہ مسئلہ "مسلمانوں کا ہے”۔
پھر گجرات کے فسادات آئے، جہاں ہزاروں جانیں تہہ تیغ ہوئیں، اور نظامِ عدل نے قاتلوں کو "کلین چٹ” دے کر، اپنی سیاہی کو سفید سمجھنے کی بھول کی۔ مگر ہم نے کہا، "یہ تو فرقہ وارانہ معاملہ ہے”۔ پھر ٹرین بم دھماکوں، مالیگاؤں، اجمیر، مکّہ مسجد کے واقعات میں مسلمانوں کو سالہاسال جیلوں میں سڑایا گیا۔ برسوں بعد جب عدالتیں کہتی ہیں: "بے قصور تھے” تو کیا ہم نے اجتماعی طور پر سوال کیا کہ جنہوں نے جھوٹے مقدمات بنائے، ان کا کیا ہوا؟ کیا صرف معصوموں کو آزاد کر دینا کافی ہے یا اُن کی کھوئی ہوئی زندگیوں کا حساب بھی کوئی دے گا؟ یہ وہ لمحہ ہے جہاں ہم سمجھتے ہیں کہ ظلم اگر صرف مسلمانوں پر ہو رہا ہے، تو ہمیں کیا فرق پڑتا ہے۔ مگر یہ تاریخ کا وہی سبق ہے جسے ہم نے بارہا نظر انداز کیا، اور ہر بار اس کا انجام سب نے بھگتا۔
یہاں نازی جرمنی کی مثال کتنی موزوں ہے، جہاں ابتداء میں صرف یہودیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ جرمنی کا باشعور طبقہ خاموش رہا۔ لیکن وہ ظلم، جو مخصوص گروہ سے شروع ہوا، چند سالوں میں ایک پوری تہذیب کو کھا گیا۔ ناانصافی کی آگ جب بھڑکتی ہے، تو وہ مذہب، نسل، زبان، لباس، یا قوم کی تفریق نہیں کرتی وہ صرف خاک کرتی ہے۔ ہمیں آج یہ ماننا ہوگا کہ یہ محض "قانونی مقدمات” نہیں، یہ ہمارے عہد کا تاریخی اور اخلاقی امتحان ہے۔ اگر آج ہم خاموش رہے، تو آنے والی نسلیں صرف ہمیں نہیں، ہماری خاموشی کو مجرم قرار دیں گی۔ یہ وقت ہے کہ ہم خاموشی کے اس نقاب کو پھاڑیں، وہ پردے چاک کریں جو صحافت نے TRP کی چمک کے لیے تان رکھے ہیں، اور وہ جال توڑیں جو انصاف کے نام پر انصاف کی روح کو قید کر چکے ہیں۔ یہ وہی موقع ہے جہاں اقبالؒ کی صدا آج کے آسمان میں گونجتی ہے: ؎
جو بات حق ہو، کہہ دو، اگرچہ جان جاتی ہو
یہی ہے مردِ مومن، یہی ہے فتحِ کامل
کیا ہم یہ صدائیں سن رہے ہیں؟ کیا ہم اس آواز پر لبیک کہنے کو تیار ہیں؟ اگر نہیں، تو پھر ظلم کا اگلا ہدف کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ اور جب نوبت اپنی دہلیز پر آئے گی، تو شاید کہنے کو کچھ نہ بچے۔ اگر آج صرف مسلمانوں کو تختۂ مشق بنایا جا رہا ہے، تو کل کوئی اور بھی اسی چکی میں پسے گا کیونکہ ناانصافی کی آگ جب بھڑکتی ہے تو وہ مخصوص حدود نہیں پہچانتی۔
