از قلم: محمد فرقان
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
8495087865, mdfurqan7865@gmail.com
یقیناً کچھ لمحے ایسے آتے ہیں جب انسانیت چیخ اُٹھتی ہے، جب ضمیر دہاڑتا ہے، جب دل کے اندر ایسی آگ بھڑکتی ہے کہ لفظ اس کا ساتھ دینے سے عاجز ہوجاتے ہیں۔ فلسطین کی سرزمین پر، غزہ کی گلیوں میں، بیت المقدس کے سائے میں، ایک سال سے بھی زائد عرصہ سے جو کچھ ہورہا ہے، وہ صرف قتل و غارت گری نہیں، وہ انسانیت کی توہین، بچوں کی آہیں، ماؤں کی سسکیاں، اور بے گھر لوگوں کی تڑپ ہے۔ وہ لاشیں نہیں جو زمین پر گری ہوئی ہیں، وہ جیتی جاگتی زندگیاں تھیں، خواب تھیں، خواہشیں تھیں، اور ہمارے جیسے انسان تھے جنہیں صہیونی درندوں نے بموں، میزائلوں اور گولیوں سے روند ڈالا۔ فلسطین میں مرنے والوں کی تعداد اب دو لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے، جن میں زیادہ تر معصوم بچے، کمزور خواتین اور نہتے بزرگ شامل ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں لاشیں اٹھتی ہیں، گھروں کے ملبے سے بچوں کی لاشیں نکالی جاتی ہیں، ماں کی گود سے اس کا لعل چھین لیا جاتا ہے، اور ایک نسل کو صفحہئ ہستی سے مٹانے کی منظم کوشش کی جارہی ہے۔
یہ کوئی وقتی جنگ نہیں، یہ دہائیوں پر محیط ظلم و ستم کا تسلسل ہے، جس کی منصوبہ بندی صہیونی دماغوں نے کی ہے اور جس کو انجام تک پہنچانے کیلئے امریکہ جیسے سامراجی طاقتوں نے اپنے اسلحے، پیسوں اور اقوام متحدہ جیسے اداروں کی بے حسی کے ساتھ تعاون دیا ہے۔ اسرائیل کی جارحیت اب صرف غزہ، رفح اور نابلس تک محدود نہیں رہی، بلکہ اس کا ہدف پورے عالم اسلام کو کمزور کرنا، مسلمانوں کی غیرت کو مار ڈالنا اور اسلامی شعور کو مٹا دینا ہے۔ جب امریکہ اسرائیل کے حق میں کھڑے ہوکر اسلحہ فراہم کرتا ہے، جب یورپی ممالک انسانی حقوق کا نعرہ لگاتے ہوئے فلسطینی بچوں کے قتل پر خاموش رہتے ہیں، جب اقوام متحدہ صرف قراردادیں منظور کرکے اپنی جان چھڑاتا ہے، تو ایسی دنیا میں مظلوموں کی آخری امید خود امت مسلمہ کے افراد ہوتے ہیں۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم بے بس ہیں؟ کیا ہم کچھ نہیں کر سکتے؟ کیا ہمارے ہاتھوں میں کوئی طاقت نہیں؟ نہیں! ہم بے بس نہیں، ہمارے پاس ایک طاقت ہے، ایک ایسا ہتھیار جو دشمن کی بنیادیں ہلا سکتا ہے، اور وہ ہے ”بائیکاٹ“! ہاں، ان کمپنیوں کا مکمل بائیکاٹ جو اسرائیل کی پشت پناہی کرتی ہیں، جو صہیونی فوج کو مالی مدد فراہم کرتی ہیں، جو اپنے منافع سے فلسطینی بچوں کی قبریں کھودتی ہیں، اور جو ہمارے پیسوں سے ہمیں ہی مارنے کیلئے اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنیوں کو سرمایہ فراہم کرتی ہیں۔ہم جو جب کسی سوپرمارکیٹ میں خریداری کرتے ہیں، جب کسی فاسٹ فوڈ چین میں کھانا کھاتے ہیں، جب کسی مشروب کو پیاس بجھانے کیلئے حلق سے نیچے اتارتے ہیں، ہم نہیں جانتے کہ ہم دراصل کن ہاتھوں کو پیسہ دے رہے ہیں۔ ہمیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہی کمپنیاں جیسے Coca-Cola، Pepsi، Nestlé، McDonalds، Starbucks،Dominos، KFC، Maggi، Unilever، اورMaggiوغیرہ جیسی کمپنیاں اسرائیل کو نہ صرف معاشی سہارا دے رہی ہیں بلکہ کئی مرتبہ صہیونی فوج کو براہ راست امداد فراہم کرتی ہیں۔ تحقیقی رپورٹس کے مطابق ان کمپنیوں کا بڑا سرمایہ اسرائیلی مارکیٹ میں گردش کرتا ہے، اور ان کے منافع کا حصہ ان تنظیموں کو جاتا ہے جو فلسطین میں نسل کشی کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔
ابھی2023ء کے اختتام پر شائع ہونے والی AFSC کی ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو ملنے والی سالانہ 3.8 بلین ڈالر کی امداد کے علاوہ بڑی کارپوریٹ کمپنیاں بھی کروڑوں ڈالرز کی رقم براہ راست یا بالواسطہ صہیونی اداروں کو دیتی ہیں۔ ایسی کمپنیوں میں سب سے نمایاں Starbucks ہے، جس کی انتظامیہ نے اسرائیل کی کھل کر حمایت کی اور فلسطین کی حمایت میں بولنے والے اپنے ملازمین کو نوکری سے برخاست کیا۔ McDonaldsنے اسرائیلی فوجیوں کو مفت کھانا فراہم کیا۔ HP اور Intel جیسی ٹیکنالوجی کمپنیاں اسرائیلی سیکیورٹی سسٹم کی تیاری میں براہ راست شریک ہیں۔ Coca-Cola کا مرکزی پلانٹ اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں میں واقع ہے اور اس کا CEO کھل کر صہیونی عزائم کی حمایت کرتا ہے۔
فلسطین سالیڈیریٹی کیمپین اور BDS موومنٹ کی تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ اگر پوری دنیا کے مسلمان ان کمپنیوں کا صرف 20 فیصد بائیکاٹ کریں، تو ان کا سالانہ نقصان 30 بلین ڈالر سے زائد ہوسکتا ہے۔ جب کوئی کمپنی یا ادارہ صہیونی ریاست اسرائیل کی مالی مدد کر رہا ہو، اور اس کی مصنوعات کی خریداری سے ظالم کو تقویت ملتی ہو، تو ایسی صورت میں ان مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا صرف جذباتی ردعمل نہیں بلکہ شرعی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صاف فرمایا: ”وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ“ (سورۃ المائدہ: 2) کہ ”گناہ اور زیادتی (ظلم) کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔“ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔“عرض کیا گیا: مظلوم کی تو مدد سمجھ آتی ہے، مگر ظالم کی کیسے؟ فرمایا: ”اسے ظلم سے روک کر“ (صحیح بخاری: 2444)۔ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ دراصل ظالم کو ظلم سے روکنے کا عملی قدم ہے۔ اور اگر کوئی کمپنی کسی ایسی ریاست یا فوج کی مالی معاونت کرتی ہو جو مسلمانوں پر ظلم کر رہی ہو، تو اس کے بائیکاٹ کا مطالبہ نہ صرف شرعاً درست بلکہ واجب کے قریب ہے۔ لہٰذا، اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ صرف ایک اخلاقی اقدام نہیں بلکہ ایک شرعی فریضہ ہے، جو ہر غیرت مند مسلمان پر لازم ہے۔ Bloomberg اور Reuters کی رپورٹس کے مطابق صرف عرب ممالک میں 2023 ء میں ہونے والے جزوی بائیکاٹ کی وجہ سے McDonald’sکو ایک چوتھائی خسارہ ہوا اور Middle East Eye کے رپورٹ کے مطابق کئی ممالک میں ان کے آؤٹ لیٹس بند کرنے پڑے۔ اسی طرح Coca-Cola کو خلیجی ممالک میں اپنی برانڈ ویلیو کھونا پڑی۔ اگر یہی بائیکاٹ مکمل اور منظم ہو، تو ان کمپنیوں کے مالی مفادات کو کاری ضرب لگائی جاسکتی ہے، اور اسرائیل کو عالمی سطح پر تنہائی کی طرف دھکیلا جاسکتا ہے۔
ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ایک مشروب ہماری غیرت سے زیادہ قیمتی ہے؟ کیا ایک برگر یا چکن پیس اتنا اہم ہے کہ اس کے بدلے ہم کسی فلسطینی بچے کی لاش کا سودا کرلیں؟ جب ہم Starbucks کی کافی پیتے ہیں تو کیا ہمیں وہ تصویر یاد آتی ہے جس میں ایک بچہ اپنی ماں کی لاش سے لپٹا ہوا تھا؟ جب ہم Nestlé کے چاکلیٹ کھاتے ہیں تو کیا ہم بھول جاتے ہیں کہ غزہ میں مائیں اپنے بچوں کو نمک ملا پانی پلا کر سلانے پر مجبور ہیں؟ یہ بائیکاٹ صرف معاشی اقدام نہیں، یہ ضمیر کی پکار ہے، یہ ایمان کی صداقت ہے، یہ مظلوموں کے ساتھ ہمارے ربط کا ثبوت ہے۔
آج سوشل میڈیا پر کئی ایسی رپورٹس گردش کر رہی ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ اسرائیلی مصنوعات کے خلاف بائیکاٹ نے اسرائیلی معیشت کو دھچکا پہنچایا ہے۔ الجزیرہ کے ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل میں 2024ء کے دوران گھریلو مصنوعات کی فروخت میں 17 فیصد کمی آئی اور براہ راست سرمایہ کاری میں 23 فیصد کمی دیکھی گئی۔ یہ محض اعداد و شمار نہیں، بلکہ ان بچوں کی دعائیں ہیں جن کے ماں باپ کو زندہ جلایا گیا، یہ ان ماؤں کی آہیں ہیں جو اپنے بچوں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکی ہیں۔ جب ہم ان مصنوعات کا بائیکاٹ کرتے ہیں، تو ہم ظالم کو براہ راست پیغام دیتے ہیں کہ ہم خاموش تماشائی نہیں، بلکہ امت کا زندہ ضمیر ہیں۔اسلامی شریعت بھی ہمیں یہی حکم دیتی ہے کہ ظالم کے خلاف آواز بلند کی جائے، اور اگر قوت نہ ہو تو کم از کم دل میں نفرت اور معاشی بائیکاٹ کے ذریعے اس کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا جائے۔ اگرہمارے ذریعہ ظالم حکمران کی مدد مالی طور ہورہی ہوتوگویا یہ ظلم میں شرکت مترادف ہے۔ تو جو کمپنی ظلم کی پشت پناہی کرے، اس کی مصنوعات خریدنا کیا ہے؟ کیا یہ ظلم میں حصہ داری نہیں؟
یہ صرف انفرادی عمل نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ادارہ جاتی سطح پر بھی اس کو منظم کیا جانا چاہیے، اور الحمدللہ، مرکز تحفظ اسلام ہند نے اس حوالے سے ایک بڑی خدمت انجام دی ہے۔ ایک تین ماہ کی تفصیلی تحقیق کے بعد ایک ایسی فہرست مرتب کی گئی ہے جس میں ان تمام مصنوعات کا احاطہ کیا گیا ہے جو اسرائیل یا اس کے معاونین سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ فہرست نہ صرف درست اور مستند ہے بلکہ اس میں ہر پراڈکٹ کے پیچھے موجود کمپنی اور اس کا اسرائیل سے تعلق بھی تحقیق کے ساتھ درج ہے۔ مرکز تحفظ اسلام ہند نے یہ فہرست ملک بھر کی تنظیموں، اداروں اور عوام الناس تک پہنچانے کی کوشش کی ہے تاکہ لوگ بیدار ہوں اور اس تحریک کا حصہ بنیں۔ یہ وقت غیرتِ ایمانی کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں۔ یہ محض ایک مہم نہیں، یہ ضمیر کا فیصلہ، دل کی پکار، اور ایمان کا امتحان ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون اس آزمائش میں سرخرو ہوتا ہے اور کون رسوا۔ ہم یا تو ظلم کے خلاف کھڑے ہو سکتے ہیں، یا اپنی بے حسی سے قاتلوں کے معاون بن سکتے ہیں۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
اب وقت آچکا ہے کہ ہم دو ٹوک فیصلہ کریں۔ یا تو ہم فلسطین کے ان بچوں کا ساتھ دیں جو ہر روز شہید ہو رہے ہیں، یا ان کمپنیوں کا جو ان کے قاتلوں کو طاقت فراہم کر رہی ہیں۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کس کے ساتھ ہیں؛ مظلوموں کے یا ظالموں کے؟ اگر ہم واقعی ایمان رکھتے ہیں، اگر ہماری غیرت ابھی زندہ ہے، اگر ہمارے دل میں امت کا درد ہے، تو ہمیں آج سے، اسی لمحے سے ان تمام اسرائیلی اور ان کے مددگار کمپنیوں کے مصنوعات کا مکمل، غیر مشروط، اٹل بائیکاٹ کرنا ہوگا۔ یہ صرف بائیکاٹ نہیں ہوگا، بلکہ مظلوم فلسطینیوں کے زخموں پر مرہم ہوگا، اور ظالم اسرائیل کے وجود پر ضربِ کاری۔
ابھی نہیں تو کب؟ ہم نہیں تو کون؟ خدارا اٹھو! خریدو نہیں، جھاڑ دو ان پراڈکٹس کو، نکال دو انہیں اپنے گھروں سے، دکانوں سے، دلوں سے۔ کیونکہ جب آخرت میں ہم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے کیا کیا تھا؟ تو ہم کم از کم یہ تو کہہ سکیں گے: اے اللہ! ہم نے ظالم کا ساتھ نہیں دیا، ہم نے مظلوم کا ساتھ دیا، ہم نے ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا تھا۔
(مضمون نگار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر ہیں)
Mohammed Furqan+918495087865