عالم اسلام: موساد کا آزمودہ میدانِ کارزار

۔مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)
•┈┈•┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈•┈┈•
جب دنیا کے افق پر خفیہ ایجنسیوں کے سائے چھاتے ہیں، تو ان میں سب سے نمایاں اور پر اسرار سایہ موساد (Mossad) کا بھی ہوتا ہے۔ اسرائیل کی یہ بدنامِ زمانہ خفیہ ایجنسی نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ دنیا کے ہر اس گوشے میں اپنے خفیہ پنجے گاڑ چکی ہے جہاں اسرائیلی مفادات کو تقویت، اور مخالف قوتوں کو کمزور کرنا ممکن ہو۔ موساد صرف ایک انٹیلیجنس ایجنسی نہیں، بلکہ یہ ایک نظریاتی ہتھیار ہے جو سازشوں کے تانے بانے بُنتی ہے، قوموں کے دل و دماغ میں شکوک و شبہات بوتی ہے، اور اپنی کارروائیوں سے نہ صرف افراد بلکہ پورے معاشرے کو مفلوج کر دینے کی طاقت رکھتی ہے۔
خفیہ جنگ کا نیا چہرہ "موساد” کی سب سے سرگرم اور طویل المیعاد کارروائیاں عالمِ اسلام میں رہی ہیں۔ اسلامی دنیا کی جغرافیائی وسعت، قدرتی وسائل، نظریاتی بنیادیں اور داخلی انتشار، موساد کے لیے ایک مستقل تجربہ گاہ بن چکی ہیں۔ وہ مسلم دنیا میں صرف تخریب کاری ہی نہیں کرتی بلکہ نظریاتی سرحدوں کو بھی دیمک کی طرح چاٹتی ہے۔ مدارس اور جامعات، میڈیا اور سوشل نیٹ ورکس، ان سب کو نفسیاتی جنگ کے میدان میں استعمال کیا جاتا ہے۔ موساد کی سب سے مہلک قوت اس کی نفسیاتی جنگ ہے۔ اس کا مقصد دشمن کو جسمانی طور پر نہیں، بلکہ ذہنی طور پر شکست دینا ہوتا ہے۔ افواہوں کا جال، جعلی دستاویزات، ان دیکھی وڈیوز، ہیکنگ، اور پراپیگنڈا سب اس جنگ کے اوزار ہیں۔ دشمن کے اندر اختلاف، مایوسی اور بے یقینی پیدا کرکے اسے اندر سے توڑنا، موساد کی پرانی حکمتِ عملی رہی ہے۔
موساد کی کارروائیوں کی فہرست میں ایران کے جوہری سائنسدانوں کے قتل، لبنانی، فلسطینی اور شامی مزاحمتی رہنماؤں پر قاتلانہ حملے، عرب ملکوں میں فوجی و سیاسی انقلابوں کی پشت پناہی، اور خلیجی دنیا میں سوشل میڈیا کے ذریعے فتنہ انگیزی کے کئی واقعات شامل ہیں۔ ان تمام کارروائیوں میں موساد اپنے ایجنٹوں، دلالوں، اور خفیہ رابطوں کے وسیع جال کو استعمال کرتا ہے۔ موساد صرف سیاسی یا عسکری سطح پر محدود نہیں، بلکہ اس کا ایک بڑا ہدف تہذیبی تصادم کو ہوا دینا بھی ہے۔ اسلام اور مغرب کے درمیان خلیج کو وسیع تر کرنا، اسلاموفوبیا کو فروغ دینا، اور مسلم نوجوانوں کو انتہاء پسندی یا بے راہ روی کی جانب دھکیلنا یہ سب اس کی طویل المدتی اسٹریٹیجی کا حصّہ ہیں۔
موساد کی کارروائیاں آج کی خفیہ جنگوں کا آئینہ ہیں، جہاں بم، بندوق اور ٹینک کی جگہ فریب، معلومات، افواہیں اور نفسیاتی حملے اصل ہتھیار بن چکے ہیں۔ 1951ء میں قائم ہونے والی موساد نے ابتدا ہی سے عرب دنیا کو اپنا مرکزی ہدف بنایا۔ اس کا بنیادی مقصد عرب ممالک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا، مزاحمتی تحریکوں کو کمزور کرنا، اور اسرائیل کی سلامتی کے نام پر بیرونی سرزمینوں میں مداخلت کو "جائز” قرار دینا رہا ہے۔ عالمِ اسلام کے لیے یہ محض ایک خفیہ ایجنسی نہیں، بلکہ ایک نظریاتی چیلنج ہے، جس کا مقابلہ اُسی وقت ممکن ہے جب ہم علمی بیداری، سیاسی بصیرت اور باہمی اتحاد کو اپنی طاقت بنائیں۔
● موساد کا نیٹ ورک اور دائرۂ کار: عالمی صہیونیت کا خاموش بازو
دنیا کی خفیہ ایجنسیوں میں اگر کوئی ایک ادارہ ہے جس کے نام سے ہی لرزہ طاری ہو جائے، تو وہ ہے موساد (Mossad)۔ لیکن موساد کو محض ایک اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسی سمجھ لینا اس کی حقیقت کو محدود کرنا ہوگا۔ درحقیقت، یہ عالمی صہیونیت کا خفیہ بازو ہے ایک ایسا بازو جو اسرائیل کے جغرافیائی تحفّظ سے بڑھ کر، عالمی سیاست، نظریات، اور تہذیبی محاذ پر اپنی چالیں چلتا ہے۔ موساد کا مشن صرف اسرائیل کے دشمنوں کو روکنا یا حملوں کی پیشگی اطلاع دینا نہیں ہے، بلکہ دشمنوں کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دینا ہے۔ یہ خاموشی کبھی ٹارگٹ کلنگ کی شکل میں آتی ہے، کبھی سائبر حملوں کی صورت میں، اور کبھی نفسیاتی جنگ کے زہریلے پروپیگنڈے کی شکل میں۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ مخالف صرف جسمانی طور پر نہیں بلکہ فکری، نظریاتی اور اخلاقی طور پر بھی ختم ہو جائے۔
موساد کے آپریشنز کا ایک مستقل ہدف اسلام اور مسلم اقوام ہیں۔ یہ ایجنسی اسلام کے سنہرے تصورات توحید، اخوت، عدل، غیرت و خود داری کو مسخ کرنے کی مسلسل کوشش کرتی رہی ہے۔ عالمی میڈیا، فلم انڈسٹری، تعلیمی ادارے، تھنک ٹینکس ہر جگہ موساد کے نظریاتی اثرات پھیلائے جاتے ہیں تاکہ اسلام کو شدّت پسند، دہشت گرد، یا رجعت پسند دکھایا جا سکے۔ موساد صرف باہر سے حملہ آور نہیں ہوتی، بلکہ اسلامی دنیا کو اندر سے توڑنے کی ماہر ہے۔ وہ قوموں اور مسلکوں کے درمیان فرقہ وارانہ تصادم کو ہوا دیتی ہے، سیاسی تحریکوں میں دراڑیں ڈالتی ہے، اور ایسے مفاد پرست حکمرانوں کو برسرِ اقتدار لانے میں کردار ادا کرتی ہے جو امت کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے میں خود شریکِ جرم ہوں۔
موساد نے "تقسیم کرو اور حکومت کرو” کے سامراجی اصول کو ایک نئے انداز میں زندہ کیا ہے اب یہ تقسیم تلوار سے نہیں، بلکہ فتنوں، فیس بک پوسٹس، فنڈڈ این جی اوز اور ایلیٹ کلاس کے ذہنوں پر قبضے کے ذریعے کی جاتی ہے۔ آج کی دنیا میں جنگ کا میدان میدانِ کارزار نہیں بلکہ ذہن ہے۔ موساد اسی جنگ کا ماہر ہے۔ جھوٹا پروپیگنڈا، افواہیں، گمراہ کن خبریں، جعلی ویڈیوز، اور دشمن کے سائبر نیٹ ورکس پر حملے یہ سب اس کے ہتھیار ہیں۔ فلسطینی مزاحمت کو بدنام کرنے سے لے کر ایران کے نیوکلیئر سائنسدانوں کے قتل تک، ہر موقع پر موساد نے اپنی مہارت کا ثبوت دیا ہے۔
موساد جانتی ہے کہ بندوق سے زیادہ طاقتور چیز قلم اور کرسی ہے۔ وہ ایسے حکمرانوں کو تلاش کرتی ہے جو چند دن کی اقتدار کی چمک کے لیے قوم کی غیرت، مذہب، وسائل اور نظریہ سب کچھ بیچنے پر تیار ہوں۔ انہیں مالی امداد، سیاسی پشت پناہی یا اندرونی حمایت دے کر یرغمال بنایا جاتا ہے۔ یوں ایک ریاست اندر سے دشمن کے رحم و کرم پر آجاتی ہے۔ موساد کا دائرہ کار ایک غیر مرئی، مگر مہلک طوفان کی مانند ہے۔ یہ طوفان صرف جسموں کو نہیں، نظریات، رشتوں، وحدت، شعور، اور شناخت کو بھی روند ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عالمِ اسلام کے لیے اس طوفان کا مقابلہ صرف توپ و تفنگ سے ممکن نہیں بلکہ علم، اتحاد، فکری بیداری اور روحانی بصیرت ہی اس کی اصل ڈھال ہے۔
● موساد کے مشہور خفیہ آپریشنز:
الف) ایران میں سائنس دانوں کا قتل:
ایران کے جوہری پروگرام سے خوفزدہ ہو کر موساد نے 2010ء سے متعدد ایرانی سائنس دانوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا۔ محسن فخری زادہ، جو ایران کے جوہری پروگرام کا دماغ سمجھے جاتے تھے، 2020ء میں ایک جدید اور ریموٹ کنٹرول آپریشن میں قتل کیے گئے۔ اس آپریشن میں مصنوعی ذہانت کا استعمال اور اسرائیل کی تکنیکی مہارت سامنے آئی۔
ب) لبنان میں حزب اللّٰہ کے خلاف کارروائیاں:
موساد نے لبنان میں حزب اللّٰہ کے خلاف کئی خفیہ آپریشنز کیے، جن میں کمانڈرز کا قتل، انٹیلی جنس نیٹ ورک کا انکشاف، اور دھماکہ خیز مواد کی اسمگلنگ شامل ہے۔ عماد مغنیہ، جو حزب اللّٰہ کے عسکری ونگ کے سربراہ تھے، 2008ء میں شام کے دارالحکومت دمشق میں ایک کار بم دھماکے میں مارے گئے، جس کا الزام موساد پر لگا۔
ج) فلسطینی رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ:
موساد کی تاریخ فلسطینی قیادت کے خلاف مسلسل آپریشنز سے بھری ہوئی ہے۔ 1988ء میں ابوجہاد کو تیونس میں، جب کہ 1997ء میں خالد مشعل کو عمان میں زہر دے کر مارنے کی ناکام کوشش کی گئی، جس کے بعد اردن کے دباؤ پر اسرائیل نے تریاق فراہم کیا۔ شہید ڈاکٹر محمد اسماعیل ہانیہؒ، شہید یحییٰ السنوارؒ کی شہادت کے پس پشت بھی موساد کا ہی ہاتھ بتایا جاتا ہے۔
د) عرب ممالک میں تخریب کاری:
موساد نے مصر، سوڈان، شام، لیبیا، اور تیونس میں مختلف خفیہ کارروائیوں کے ذریعے سیاسی رہنماؤں کو نشانہ بنایا، دہشت گرد گروپوں کو مالی و عسکری مدد دی، اور خانہ جنگیوں کو ہوا دی۔
ہ) پاکستان کے خلاف کارروائیاں:
پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی، علیحدگی پسند تحریکوں کی پشت پناہی، اور بلوچستان میں بدامنی پیدا کرنے کے پیچھے موساد اور دیگر ممالک کی خفیہ ایجنسیز کا اشتراک سامنے آ چکا ہے۔ کئی ایجنٹس کی گرفتاری اور ان کے اعترافی بیانات اس کی ایک اہم مثال ہیں۔
● موساد کی طریقۂ واردات: خاموشی سے وار، گہرائی سے اثر
دنیا کی خفیہ ایجنسیوں میں موساد کا نام محض ایک تنظیم نہیں بلکہ ایک حکمتِ عملی، ایک سوچ، اور ایک مخصوص طرزِ واردات کا نمائندہ ہے۔ یہ وہ ایجنسی ہے جو دشمن پر حملہ کرنے سے پہلے اس کے ذہن، اس کی فضا، اور اس کے اعتماد کو توڑتی ہے۔ موساد کی کارروائیاں ایسے شطرنجی چالوں کی مانند ہیں جن کا ہر مہرا خاموشی سے حرکت کرتا ہے اور ہدف کو خبر تک نہیں ہوتی۔ آئیے موساد کے چند نمایاں طریقۂ واردات کا قریب سے جائزہ لیتے ہیں:
موساد کے ایجنٹس دنیا بھر میں جعلی شناختوں کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ وہ کبھی یورپی سیاح ہوتے ہیں، کبھی امدادی کارکن، کبھی طالب علم، اور کبھی کسی مذہبی جماعت کے رکن۔ ان کا مذہب، زبان، لباس، اور طرزِ گفتگو سب کچھ اس قدر کامل ہوتا ہے کہ شناخت کا پردہ فاش کرنا ناممکن سا لگتا ہے۔ 1987ء میں دبئی میں حماس کے رہنما محمود المبحوح کے قتل میں شریک موساد اہلکاروں کے پاس برطانوی، آئرش اور آسٹریلوی پاسپورٹ تھے سب جعلی، سب جیتے جاگتے کرداروں کی مانند۔
موساد نے جدید ٹیکنالوجی کو خفیہ جنگ کا محور بنا دیا ہے۔ ڈرونز دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھتے ہیں، سائبر ہیکنگ سے ریاستوں کے راز چرا لیے جاتے ہیں، مصنوعی ذہانت (AI) کی مدد سے مطلوبہ افراد کی پہچان، ان کے معمولات، اور کمزور پہلو معلوم کیے جاتے ہیں، اور اسمارٹ ویپنز کے ذریعے دور بیٹھ کر بھی ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہے۔ ایران کے جوہری سائنسدان فخری زادہ کا قتل، جس میں AI اور ریموٹ کنٹرول ہتھیار استعمال کیے گئے، موساد کی جدید ترین صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
موساد کا خاص حربہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں سے نہیں، دوسروں کے ہاتھوں سے وار کرتی ہے۔ وہ ان لوگوں کو تلاش کرتی ہے جو مقامی زبان جانتے ہوں، جن کے دلوں میں سیاسی یا مذہبی اختلافات کا شعلہ ہو، یا جو ذاتی مفادات کے پجاری ہوں۔ انہیں خریدا جاتا ہے، ورغلایا جاتا ہے، یا بلیک میل کیا جاتا ہے۔
یوں موساد "اندرونی دشمن” تیار کرتی ہے جو اپنے ہی معاشرے کو کمزور کرتا ہے، معلومات فراہم کرتا ہے یا فساد کا بیج بوتا ہے۔
جنگ کی ایک قسم وہ ہے جو جسم کو زخمی کرے، مگر موساد کی جنگ روح اور شعور پر حملہ کرتی ہے۔ جھوٹے بیانیے پھیلانا، سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا مہم چلانا، مخالفین کو رسوا کرنا، افواہوں سے معاشرے میں خوف، بدگمانی اور تفرقہ پیدا کرنا یہ سب نفسیاتی جنگ کا حصّہ ہے۔ موساد جانتی ہے کہ اگر کسی قوم کو ذہنی طور پر شکست دے دی جائے تو بندوق اٹھانے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ موساد کی طریقۂ واردات جدید دنیا کی خفیہ جنگوں کا نچوڑ ہے جہاں نہ میدان ہوتا ہے، نہ مورچہ صرف سائے ہوتے ہیں، اور ان سائے میں چھپی ہوتی ہے ایک پوری فوج، جو چہروں کے پیچھے چہروں کے ساتھ، نظریات کے پیچھے نظریات کو روندتی ہے۔ اُمّتِ مسلمہ کو چاہیے کہ ان طریقوں کی حقیقت کو سمجھے، اپنی صفوں کو مضبوط کرے، اپنے اداروں کو باخبر رکھے، اور اپنے نوجوانوں کو شعور و حکمت کے ہتھیار سے لیس کرے کیونکہ دشمن کا وار اب تلوار سے نہیں، ذہنوں اور رُوحوں پر ہوتا ہے۔
● عالمِ اسلام کی کمزوریاں: دشمن کی جیت، اپنوں کی شکست
جب ایک چالاک دشمن کامیابی پر کامیابی سمیٹتا چلا جائے تو یہ لازم نہیں کہ اس کی طاقت غیر معمولی ہو بسا اوقات شکست کا سبب ہماری اپنی کمزوریاں، ہماری اپنی کوتاہیاں اور ہماری آپسی دراڑیں ہوتی ہیں۔ موساد جیسی خفیہ ایجنسیوں کے لیے عالمِ اسلام کو نشانہ بنانا اس لیے آسان رہا کیونکہ مسلم دنیا اندر سے بکھری، کمزور اور اختلافات میں جکڑی ہوئی ہے۔
اُمّتِ مسلمہ کو جو چیز سب سے زیادہ کمزور کرتی ہے وہ ہے اندرونی اختلاف۔ ہم قوم، قبیلہ، فرقہ اور مسلک کی بنیاد پر ایک دوسرے سے جدا ہو چکے ہیں۔ دشمن نے ہمیں قومیت کے نام پر بانٹا، اور ہم بانٹتے چلے گئے۔ شیعہ و سنی، عرب و عجم، مشرق و مغرب ہم نے وحدتِ اسلامی کے خواب کو اپنی خودساختہ شناختوں کے خنجر سے چاک کر دیا۔ یہ اختلافات موساد کے لیے دروازہ بن گئے ایک ایسا دروازہ جو ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے کھولا۔
عالمِ اسلام کے بیشتر ممالک میں سیاسی عدم استحکام ایک معمول ہے۔ اقتدار کی ہوس، بیرونی آقاؤں کی خوشنودی، اور شفافیت سے عاری نظام نے حکومتوں کو بے اعتبار اور اداروں کو کھوکھلا بنا دیا۔ جب ایک ریاست کے ستون کمزور ہوں تو موساد جیسی تنظیم کے لیے وہاں داخل ہونا، معلومات حاصل کرنا، اور منصوبہ بندی کرنا ایک آسان مشق بن جاتی ہے۔ بدعنوانی، اقربا پروری، اور عدالتی کمزوریاں دشمن کو اندر سے دروازے دکھاتی ہیں اور ہم خود اپنی چابیاں پیش کر دیتے ہیں۔
جب قومیں اپنے فیصلے خود کرنے کے بجائے غیروں کی میز پر فیصلے لکھوائیں تو وہ صرف سیاسی خودمختاری نہیں کھوتیں، بلکہ اپنی نظریاتی و روحانی خودی بھی داؤ پر لگا دیتی ہیں۔ عالمِ اسلام کا المیہ یہی ہے کہ اکثر مسلم ممالک عالمی طاقتوں، خاص طور پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے سائے میں اپنی پالیسی بناتے ہیں۔ یہ بیرونی انحصار موساد کے لیے ایک زبردست موقع بن جاتا ہے۔ چونکہ موساد ان ہی طاقتوں کے ساتھ براہِ راست منسلک ہے، اس لیے وہ ہر اس جگہ داخل ہو جاتی ہے جہاں اُمّتِ مسلمہ کی خود مختاری پہلے ہی گروی رکھی جا چکی ہو۔
دشمن کے خلاف دفاع کا پہلا مورچہ ہوتا ہے خفیہ معلومات کا مضبوط نظام۔ لیکن افسوس کہ مسلم دنیا کے اکثر ممالک میں انٹیلیجنس ادارے یا تو کمزور ہیں، یا ایک دوسرے سے متصادم اور غیر مربوط۔ نہ معلومات کا باہمی تبادلہ، نہ مشترکہ حکمت عملی، نہ اجتماعی دفاعی فورم۔ یہ انتشار موساد کے لیے زمین ہموار کرتا ہے، کیونکہ جہاں نگرانی نہ ہو، وہاں دراندازی آسان ہو جاتی ہے۔ موساد جیسی ایجنسیوں کی کامیابی میں جتنا ہاتھ ان کی مہارت کا ہے، اس سے کہیں زیادہ ہمارے انتشار، غفلت، اور کمزوریوں کا دخل ہے۔ جب تک عالمِ اسلام اپنی صفوں کو سیدھا نہیں کرتا، عقل و شعور سے کام نہیں لیتا، اور داخلی اصلاح کے عمل کو شروع نہیں کرتا تب تک بیرونی سازشیں جاری رہیں گی، اور ہم خود ان کے سہولت کار بنے رہیں گے۔
● موساد کا مقابلہ: بیدار اُمّت، مضبوط نیٹ ورک، اور فکری خود کفالت
جب دشمن کی سازشیں گہری ہوں اور حملے خاموشی سے ہوں، تو مدافعت کے لیے صرف اسلحہ کافی نہیں ہوتا بلکہ عقل، اتحاد، شعور اور خود اعتمادی درکار ہوتی ہے۔ موساد جیسے اداروں کے خلاف محض ردِعمل دکھانا کافی نہیں؛ ایک جامع، طویل المدتی اور مربوط حکمتِ عملی کی ضرورت ہے جو اُمّت کے فکری، سائنسی، اور نظریاتی ڈھانچے کو مضبوط کرے۔ اسلامی دنیا کو اب مزید وقت ضائع کیے بغیر مشترکہ خفیہ نیٹ ورک (Islamic Intelligence Cooperation) قائم کرنا ہوگا ایک ایسا اتحاد جہاں معلومات کا فوری تبادلہ ہو، دہشت گردی، جاسوسی اور فتنہ انگیزی کی نشان دہی ہو، اور بیرونی ایجنسیوں کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھی جائے۔ موساد جیسے ادارے اس لیے کامیاب ہیں کہ وہ متحد ہیں، ٹیکنالوجی سے لیس ہیں اور ان کے اہداف واضح ہیں۔ ہمیں بھی ایسا انٹیلیجنس اتحاد درکار ہے جو اُمّت کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا نگران ہو بے آواز، مگر بیدار۔
موساد کی کامیابیوں کی ایک بڑی بنیاد مسلمانوں کے درمیان اختلاف، تعصب، اور جہالت ہے۔ ہمیں اپنے عوام کو صرف خبروں کا صارف نہیں بلکہ شعور کا حامل بنانا ہوگا۔ مسلکی اختلافات کو دشمنی نہ بننے دینا، قوم پرستی کو اُمّت کے تصور پر غالب نہ آنے دینا، اور سیاسی شعور کو "قومی مفاد” کی بنیاد پر پروان چڑھانا یہی وہ اقدار ہیں جو موساد جیسے اداروں کے لیے دروازے بند کر سکتی ہیں۔ فرقہ واریت ایک زخم ہے جس پر دشمن مرہم نہیں، نمک چھڑکتا ہے علاج ہمیں خود کرنا ہوگا۔ موجودہ دور میں جنگ میدانوں سے زیادہ سوشل میڈیا اور معلوماتی محاذ پر لڑی جا رہی ہے۔ موساد اور اس کے اتحادی مغربی میڈیا کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف جھوٹے بیانیے پھیلاتے ہیں، اور نوجوان نسل کو ذہنی غلام بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سوشل میڈیا پر مثبت اور باوقار اسلامی بیانیہ پیش کریں، موساد اور دیگر ایجنسیوں کے خفیہ جرائم بے نقاب کریں، اور تعمیری مکالمے کو فروغ دیں، تاکہ اُمّت کے نوجوان صرف ردِعمل نہیں بلکہ رہنمائی کا سر چشمہ بنیں۔
دشمن کی ٹیکنالوجی کا جواب صرف نعرے نہیں، بلکہ اپنی ٹیکنالوجی، اپنی سائنسی ترقی، اور اپنی علمی قوت سے دیا جا سکتا ہے۔ عالم اسلام کو چاہیے کہ سائنس اور جدید ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرے، تعلیمی اداروں کو تحقیقی مراکز میں بدلے، اور عسکری میدان میں دوسروں پر انحصار کی بجائے خود کفیل بنے۔ خود انحصاری صرف دفاعی طاقت کا ضامن نہیں، بلکہ یہ خودداری کا مظہر ہے اور یہی موساد کی سب سے بڑی شکست ہوگی۔ موساد جیسے اداروں کا مقابلہ بندوق سے زیادہ قلم، شعور، اتحاد، اور نظریاتی بیداری سے ممکن ہے۔ اگر ہم اپنی صفوں میں اتحاد، اپنی فکر میں وضاحت، اور اپنی ترجیحات میں اُمّت کی عزّت کو مقدم کر لیں تو کوئی خفیہ ایجنسی، کوئی فتنہ، کوئی فریب ہمیں زیر نہیں کر سکتا۔ یہ وقت محض ردّعمل کا نہیں، بیداری اور عمل کا ہے۔
● موساد کی خاموش یلغار: ملّتِ اسلامیہ کی روح پر حملہ
جب دشمن کی گولیاں جسم کو چیرتی ہیں، تو زخم دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن جب حملہ روح پر ہو، فکر پر ہو، شناخت پر ہو تو وہ زخم نظر نہیں آتے، صرف تباہی پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ موساد کی خفیہ کارروائیاں اسی نوعیت کی ہیں یہ صرف حکومتوں، اداروں یا منصوبوں کے خلاف نہیں بلکہ براہِ راست اُمّتِ مسلمہ کی روح، نظریے، وحدت اور خودی پر حملہ آور ہیں۔ یہ خنجر جو پردوں کے پیچھے چھپے ہیں، وہ صرف کسی ایک قوم، ایک مکتبِ فکر، یا ایک خطے کو نہیں چیرتے یہ حملہ پورے "خطۂ اسلام” کو لہو لہان کرنے کی سازش ہے۔
ایسی صورتِ حال میں اگر ہم نے بھی آنکھیں موندھ لیں، زبانیں گنگ رکھیں، اور ہاتھ قلم کر لیے تو ہم خود دشمن کی کامیابی کے معمار بن جائیں گے۔ اب وقت ہے شعور کا۔ ایسا شعور جو دشمن کی چالوں کو سمجھے، اس کے اصل اہداف کو پہچانے، اور اس کی چالاکی سے مرعوب ہونے کے بجائے حکمت و بصیرت سے جواب دے۔ اب وقت ہے اتحاد کا۔ ایسا اتحاد جو مسلک، زبان، نسل، اور قومیت کی دیواروں کو توڑ کر اُمّت کی وحدت پر مبنی ہو۔ موساد کی سب سے بڑی کامیابی ہماری سب سے بڑی شکست یعنی فرقہ واریت اور تعصب ہے۔ ہمیں اس کو شکست دے کر ہی موساد کی جڑوں کو ہلا دینا ہے۔ اور اب وقت ہے مزاحمت کا۔ ایسی مزاحمت جو صرف میدانِ جنگ میں نہ ہو، بلکہ فکر، میڈیا، تعلیم، ٹیکنالوجی، اور سفارت کاری ہر میدان میں ہو۔ یہ مزاحمت فقط تلوار نہیں، قلم، سچائی، اور دانش سے ہو۔
یہ تاریخ کا المیہ ہے کہ اُمّتِ مسلمہ بارہا دشمن کی چالوں کا شکار ہوئی، اور ہر بار اس کی شکست کی بنیاد اندرونی کمزوری بنی۔ اندلس کا زوال ہو یا خلافتِ عثمانیہ کا سقوط، فلسطین کی تقسیم ہو یا عراق و شام میں بغاوتیں ہر جگہ دشمن باہر سے نہیں، پہلے اندر سے آیا۔ اب ہمیں تاریخ کو صرف ماضی نہیں، آئینہ سمجھنا ہوگا۔ اس میں جو خون بہا، جو دیواریں گریں، جو خواب بکھرے وہ سب ہمیں خبردار کرتے ہیں کہ دشمن کی کامیابی ہمیشہ ہماری ناسمجھی، ہماری تفرقہ بازی، اور ہماری خاموشی کا نتیجہ رہی ہے۔ اگر آج ہم نے اپنے داخلی اختلافات، ذاتی مفادات، اور معمولی ترجیحات کو قوم و ملّت سے بلند رکھا، تو ہم خود موساد جیسے دشمنوں کی خوراک بن جائیں گے۔ لیکن اگر ہم نے اپنے اندر بیداری پیدا کی، عقل و ایمان کے ساتھ اتحاد قائم کیا، اور باہمی احترام و اخوت کی فضا استوار کی تو پھر کوئی ایجنسی، کوئی طاقت، کوئی سازش، اُمّت کی روح کو مجروح نہیں کر سکتی۔ اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے!!! ہم دشمن کا آسان ہدف بنیں؟ یا اُمّتِ محمدیہؐ کے جاگتے نگہبان؟
(20.06.2025)
•┅┄┈•※✤م✿خ✤※┅┄┈•
مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)