مہاراشٹرا
“ایم پی ایس سی میں اردو ادب کی شمولیت: لسانی انصاف کا تقاضا”

عقیل خان بیاولی،
موظف پرنسپل جلگاؤں

مہاراشٹر پبلک سروس کمیشن (MPSC) نے سال 2025 سے ریاستی خدمات کے مین امتحان کے طریقۂ کار میں ایک اہم تبدیلی کا ٢٠٢٥ سے اعلان کیاگیا ہے۔ اب یہ امتحانات معروضی طرز (MCQ) کے بجائے تشریحی انداز میں منعقد کیے جائیں گے، بالکل ویسے ہی جیسے کہ یونین پبلک سروس کمیشن (UPSC) میں رائج ہے۔ اس نئے نظام میں جنرل اسٹڈیز کے چار پرچے، مضمون نویسی، اہلیت پر مبنی پرچہ، اور ایک اختیاری مضمون شامل کیا گیا ہے۔ اختیاری مضامین کی فہرست میں 25 موضوعات کو شامل کیا گیا ہے، جن میں مراٹھی، ہندی، انگریزی سماجیات، معاشیات، نفسیات، سیاسیات، حیاتیات وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اردو زبان و ادب کو اس فہرست سے باہر رکھا گیا ہے۔یہ فیصلہ نہ صرف لسانی توازن کے منافی ہے بلکہ مہاراشٹر کی ایک بڑی اقلیتی آبادی کے تعلیمی، ثقافتی اور سماجی حقوق پر ضرب کے مترادف بھی ہے۔
2011ء کی مردم شماری کے مطابق مہاراشٹر میں مسلم آبادی کا تناسب 11.54 فیصد ہے، اور مسلم طلبہ کی ایک بڑی تعداد اردو کو ذریعہ تعلیم کے طور پر اختیار کرتی ہے۔ اردو صرف ایک زبان نہیں بلکہ ہندوستانی تہذیب و تمدن، شاعری، فلسفہ، سیاست اور روحانیات کی نمائندہ زبان ہے۔ اس زبان کا امتحانی نظام سے اخراج دراصل ایک طبقے کو مسابقتی میدان سے نکالنے کے مترادف ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاچورہ کے فعال ادبی ادارے لٹریری فورم اور جلگاؤں کی متحرک سماجی تنظیم ایکتا سنگھٹنا نے اس فیصلے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ لٹریری فورم نے تحصیل دار پاچورہ کے توسط سے ریاستی حکومت کو محضر پیش کی، جب کہ ایکتا سنگھٹنا نے ضلع کلکٹر جلگاؤں کے ذریعہ وزیر اعلیٰ، نائب وزیر اعلیٰ اور دیگر متعلقہ حکام تک یہ مطالبہ پہنچایا۔ اس مطالبے کے پیچھے ایک ٹھوس دلیل، عدل و مساوات کا تقاضا اور لسانی حساسیت کی اپیل موجود ہے۔پاچورہ کی لیٹریری فورم کی نمائندگی شیخ جاوید شیخ سنجیدہ، سلمان شوکت معاذ شیخ، ایڈوکیٹ وسیم باغبان نے کی،
جبکہ جلگاؤں میں فاروق شیخ، انیس شاہ، نجم الدین شیخ، انور صیقلگر، خلیل شیخ، مجاہد خان، رئیس شیخ، وسیم شیخ، معین الدین قریشی اور دیگر نے پیش قدمی کی۔لسانیات کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کسی بھی زبان کی ترقی و بقا کا انحصار اس کے سرکاری و تعلیمی اداروں میں موجودگی پر ہے۔ اردو کو اختیاری مضمون سے محروم رکھنا دراصل اس زبان کے علمی و ادبی سرمایے کو محدود کرنے کی ایک کوشش محسوس ہوتی ہے۔ یہ زبان نہ صرف لاکھوں طلبہ کی مادری زبان ہے بلکہ مہاراشٹر کی ادبی، ثقافتی و تاریخی وراثت کا بھی اہم جز ہے۔حکومتِ مہاراشٹر اور MPSC کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو محض لسانی نہیں بلکہ تعلیمی، سماجی اور آئینی تناظر میں دیکھیں۔ آئینِ ہند ہر شہری کو مساوی مواقع فراہم کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔ ایسے میں اردو زبان کے ساتھ یہ امتیازی رویہ ایک پورے طبقے کو ریاستی خدمات کی دوڑ سے باہر نکال سکتا ہے، جو نہ صرف اجتماعی محرومی کو جنم دے گا بلکہ گہرے سماجی انتشار کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاستی حکومت فوری طور پر اس مطالبے پر ہمدردانہ غور کرے، اور اردو ادب کو بھی دیگر زبانوں و مضامین کے برابر حیثیت دیتے ہوئے اختیاری مضامین کی فہرست میں شامل کیا جائے۔ یہ اقدام نہ صرف اقلیتی طلبہ کے حق میں ہوگا بلکہ مہاراشٹر کی کثیر لسانی شناخت کو بھی تقویت دے گا۔
زبان کے ساتھ انصاف، قوم کے ساتھ انصاف ہوتا ہے۔ اور اردو صرف زبان نہیں، تہذیب کا آئینہ ہے۔