قومی

وقف ترمیمی قانون 2025: صرف وقف پر نہیں، دستور ہند پر حملہ ہے!

کرناٹک کے مختلف مذاہب کے رہنما اور سول سوسائٹی کا مسلمانوں کی جدوجہد کے ساتھ تاریخی اظہارِ یکجہتی

بنگلور، 24؍ جون (پریس ریلیز): ریاست کرناٹک کے دارالحکومت بنگلور کے تاریخی اور باوقار ودھان سودھا کے ایل ہیچ کے کانفرنس ہال میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی زیر قیادت جاری’’ وقف بچاؤ،دستور بچاؤ تحریک‘‘ کے تحت مختلف مذاہب کے رہنما، مذہبی تنظیموں کے ذمہ داران اور سول سوسائٹی کے اہم شخصیات کے درمیان غیر آئینی وقف ترمیمی قانون 2025 ء کے سلسلے میں ایک اہم گول میز کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا۔ یہ اجلاس نہ صرف مسلمانوں کی اوقافی املاک پر ہونے والے خطرناک حملے کے خلاف تھا بلکہ ہندوستان کے آئینی اور جمہوری ڈھانچے کے تحفظ کی ایک گونج دار صدا بھی تھا۔ اس اجلاس میں ریاست کی مختلف مذہبی برادریوں، اقلیتی طبقات، دینی و ملی تنظیموں، ممتاز وکلاء، انسانی حقوق کے کارکنان اور سول سوسائٹی کے ذمہ داران نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہندو، عیسائی، سکھ، بدھ اور جین مذاہب کے رہنماؤں نے مسلمانوں کی اس جدوجہد کو محض اقلیت کی لڑائی نہیں بلکہ ہندوستان کے دستور کے دفاع کی لڑائی قرار دیا، اور کھلے الفاظ میں اس تحریک کے ساتھ قدم بہ قدم چلنے کا وعدہ کیا۔

شرکاء اجلاس نے متفقہ طور پر اس بات کا اعلان کیا کہ پارلیمنٹ سے منظور شدہ وقف ترمیمی قانون 2025 نہ صرف مسلمانوں کے مذہبی، آئینی اور جائیدادی حقوق پر حملہ ہے، بلکہ یہ ہندوستان کے آئین کی بنیادی روح کے بھی سراسر منافی ہے۔ اجلاس میں منظور کردہ قرارداد میں درج ذیل نکات واضح کیے گئے کہ یہ ترمیمات آئین ہند کی دفعات 14، 25، 26، 29 اور 30 سے براہ راست ٹکراتی ہیں۔ ان میں وہ تمام تحفظات ختم کر دیے گئے ہیں جو اب تک مسلمانوں کی وقف املاک کو حاصل تھے، جبکہ دیگر مذاہب کی اوقافی املاک بدستور محفوظ و مستثنیٰ ہیں۔ قانون کے تحت اگر کوئی مسلمان پانچ سال سے ’’با عمل‘‘ نہ ہو تو وہ اپنی ذاتی جائیداد کو وقف نہیں کرسکتا، جو کہ مذہبی آزادی اور شخصی حق پر کھلی قدغن ہے۔ اسی طرح وقف بورڈ اور سینٹرل وقف کونسل میں مسلمان ہونے کی شرط کو ختم کر دینا، اور جمہوری انتخابات کے بجائے نامزدگی کو نافذ کرنا، اقلیتوں کی نمائندگی کو مکمل طور پر سلب کرنے کے مترادف ہے۔ ترمیمات کے بعد اگر کوئی وقف جائیداد ’’ہیریٹیج‘‘ قرار پائے یا محکمہ آثار قدیمہ کے زیر انتظام چلی جائے تو وہ اب وقف نہیں رہے گی۔ قبائلی مسلمانوں کے لیے بھی اپنی زمین وقف کرنے کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اگر کسی وقف جائیداد پر حکومت نے قبضہ کر رکھا ہے تو اب اس کا فیصلہ وقف بورڈ نہیں بلکہ حکومت کا نامزد کردہ افسر کرے گا، جو عدل و انصاف کے تمام اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ وقف املاک کو’’استعمال کی بنیاد پر‘‘ رجسٹر کرانے کی لازمی شرط اور تنازعہ کی صورت میں ان کی وقف حیثیت کے ختم ہونے کا خطرہ، اس پورے نظام کو غیر محفوظ اور غیر یقینی بنا دیتا ہے۔ یہ سب ترمیمات اس بات کا اعلان ہیں کہ حکومت اقلیتوں کو ان کے مذہبی، تعلیمی، رفاہی اور معاشرتی ادارے چلانے کا بنیادی آئینی حق چھیننا چاہتی ہے۔

 

اسی تناظر میں اجلاس کے شرکاء نے حکومت سے درج ذیل مطالبات کیے کہ متنازعہ وقف ترمیمی قانون کو فوری طور پر واپس لیا جائے تاکہ آئینی توازن بحال ہو سکے۔ نیز جب تک اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمے کا کوئی فیصلہ نہیں آجاتا، اس وقت تک اس قانون کے نفاذ پر روک لگائی جائے۔ قابل ذکر ہے کہ یہ اجلاس ہندوستانی جمہوریت، آئین، مذہبی آزادی، اقلیتوں کے حقوق اور ملک کی مشترکہ تہذیب کے تحفظ کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوا۔ مختلف مذاہب کے نمائندوں کا مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ تحریک صرف وقف کی نہیں، پورے ہندوستان کی روح کے دفاع کی تحریک ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اعلان کیا ہے کہ یہ تحریک اب ملک گیر سطح پر شدت سے جاری رکھی جائے گی، اور ہر قانونی، جمہوری اور پرامن طریقے سے اس حملے کا مقابلہ کیا جائے گا۔ اس موقع پر جگموہن سنگھ (صدر سکھ پرسنل لا بورڈ)، شیوا سندر (سینئر صحافی)، ایڈوکیٹ ایم کے میتری، ایڈوکیٹ افسر جہاں نے خصوصی خطاب کئے، ڈاکٹر سعد بلگامی (امیر جماعت اسلامی کرناٹک) نے اجلاس کی صدارت فرمائی، مفتی ڈاکٹر محمد مقصود عمران رشادی (امام و خطیب جامع مسجد بنگلور)، بڑگل پور ناگیندرا (صدر کسان مورچہ کرناٹک)، ایڈوکیٹ وینئے شری نواسن (صدر آلٹرنیٹو لا فورم)، پروفیسر راجیندر (آل انڈیا سیکریٹری پی یو سی یل)، نور شری دھر (صدر جن شکتی)، ڈاکٹر بھانو پرکاش و دیگر نے اظہار خیال کیا۔ مفتی افتخار احمد قاسمی (صدر جمعیۃ علماء کرناٹک و رکن بورڈ)، مولانا اعجاز ندوی (امام جامع مسجد اہلحدیث بنگلور)، مولانا محمد زین العابدین رشادی و مظاہری (مہتمم دارالعلوم شاہ ولی اللہ بنگلور)، عاصم افروز سیٹھ (رکن بورڈ)، محب اللہ خان امین (جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء کرناٹک)، فیاض شریف (سی ای او وزڈم اسکول)، محمد فرقان (ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)، رامے گوڑا (مدیر شودر)، شری وینکٹیش (دلت لیڈر)، تارا راؤ (یددلو کرناٹکا)، اے آر واسوی (لیڈر مہلا آندولن) وغیرہ بطور خاص شریک تھے- اجلاس میں برادران وطن کی 60 تنظیموں کے 85 ذمہ داران اور ملت کے 35 نمایاں شخصیات شریک رہے۔ کانفرنس کے کنوینر محمد یوسف کنی نے تمہیدی گفتگو فرمائی اور تمام مہمانوں کا استقبال کیا- صدارتی خطاب پر یہ اجلاس اختتام پذیر ہوا۔

todayonelive@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!